کراچی(رپورٹنگ آن لائن)مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران روئی کے بھائو میں مندی کا تسلسل جاری رہا۔
کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 300 روپے کی کمی کر کے اسپاٹ ریٹ فی من 17000 روپے کے بھائو پر بند کیا۔ نیو یارک کاٹن کے وعدے کے بھائو میں نمایاں اضافہ ہوا۔مقامی اسپنرز پہلے ہی درامدی روئی کی طرف مائل ہیں اکا دکا ملز مقامی روئی خرید رہی ہیں وہ بھی زیادہ تر ادھار خرید رہے ہیں۔ جنرز کے پاس روئی کا اسٹاک پڑا ہوا ہے وہ مشکلات میں ہے۔اپٹمامسلسل EFS کے متعلق حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے EFS کی سہولت کی وجہ سے روئی یارن اور کپڑا وافر تعداد میں در آمد ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مقامی انڈسٹری بری طرح متاثر ہو رہی ہے اب مخصوص طبقہ میں ایسا کہا جا رہا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر خصوصی طور پر ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے؟
موصولہ اطلاعات کے مطابق حکومت ٹیکسٹائل سیکٹر کے EFS کا مسئلہ حل کرنے پر نظر ثانی کررہی ہے۔دوسری جانب ٹیکسٹائل اسپنرز درآمدی روئی پر انحصار بڑھاتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے جننگ انڈسٹری بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔حکومت نے کپاس کی بحالی کے لئے مخصوص کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں ٹیکسٹائل انڈسٹری اور جننگ انڈسٹری سے منسلک ماہرین کو شامل کیا گیا ہے اگر کمیٹی صحیح طریقے سے حکمت عملی تیار کر کے پالیسی بنائی گی اور اس پر عمل درآمد کیا جائے گا تو وہ ضرور فائدہ پہنچاسکے گی۔ کمیٹی کا پہلا اجلاس منگل کو منعقد کیا گیا تھا جس میں کپاس کی بحالی کے لئے مشورے پیش کئے گئے تھے۔
دوسری جانب کپاس کی نئی سیزن کے لئے اگتی کاشت کی پھٹی کے سودے فی 40 کلو 8000 تا 8400 روپے کے بھا پر ہورہی ہیں فی الحال موصولا اطلاعات کے مطابق تقریبا 20 ٹرکوں کے سودے ہو چکے ہیں۔صوب سندھ میں کوالٹی اور پیمنٹ کنڈیشن کے حساب سے روئی کا بھا فی من 15500 تا 17000 روپے صوب پنجاب میں 16000 تا 17200 روپے چل رہا ہے۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں 300 روپے کی کمی کرکے فی من 17000 روپے کے بھائو پر بند کیا۔
کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا بین الاقوامی کاٹن میں مندی کا تسلسل ہے نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھائو بڑھ کر فی پائونڈ 66.50 تا 67.50 امریکن سینٹ رہا۔ USDA کی ہفتہ وار برامدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 2024-25 کے لیے 2 لاکھ 71 ہزار 800 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔ویتنام 1 لاکھ 12 ہزار 700 گانٹھیں خرید کر سر فہرست رہا۔ترکی 89 ہزار 300 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔پاکستان 42 ہزار 700 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔سال 2025-26 کے لیے 1 لاکھ 10 ہزار 200 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔
پاکستان 62 ہزار 400 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔ہونڈوراس 20 ہزار 800 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔ترکی 20 ہزار گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔برامدات 4 لاکھ 3 ہزار 500 گانٹھوں کی ہوئی۔ویتنام 1 لاکھ 26 ہزار 700 گانٹھیں درآمد کر سر فہرست رہا۔پاکستان 1 لاکھ 1 ہزار 600 گانٹھیں درآمد کر دوسرے نمبر پر رہا۔ترکی 62 ہزار 200 گانٹھیں درامد کر کے تیسرے نمبر پر رہا۔دریں اثناکپاس کی فصل کی پیداوار بڑھانے کی کمیٹی (CCCPE) نے منگل کو ملک میں کپاس کی گرتی ہوئی پیداوار کو بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا،
جس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال 34 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ (MNFS&R) رانا تنویر حسین نے وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر قائم ہونے والے CCCPE کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے تمام شرکا کو یقین دلایا کہ ان کے تاثرات کو حتمی رپورٹ میں شامل کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ کمیٹی کا بنیادی ہدف کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے حکمت عملیوں کا موثر نفاذ ہے۔MNFS&R کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی ریسرچ کے چیئرمین سید حسین طارق، وفاقی سیکرٹری وسیم اجمل چوہدری سمیت تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز نے اجلاس میں شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس کی بنیادی توجہ کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے فوری اقدامات پر تھی کیونکہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں وسیع بحثیں ہوئیں، اسٹیک ہولڈرز نے قیمتی بصیرت اور سفارشات فراہم کیں۔پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (پی سی سی سی)کے نائب صدر ڈاکٹر یوسف ظفر نے شرکا کو ملک میں کپاس کی پیداوار کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔بات چیت کے دوران کئی اہم مسائل اٹھائے گئے، جن میں اعلی معیار کے بیجوں کی کمی، کپاس اگانے والے علاقوں کی غلط زوننگ، جینیاتی طور پر تبدیل شدہ (GMO) بیجوں پر ناکافی تحقیق، اور امتیازی ٹیکس پالیسیوں سے درپیش چیلنجز شامل ہیں۔مزید برآں، شرکا نے کپاس کی کاشت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور غیر دستاویزی پیداوار سے نمٹنے کی اہمیت پر زور دیا۔ اہم سفارشات میں سے ایک ایسی فصلوں کو فروغ دینا تھا جو کپاس کی جلد بوائی کے قابل ہو، جس میں پیاز اور سرسوں کو قابل عمل اختیارات کے طور پر تجویز کیا گیا تھا۔
اجلاس کا اختتام پاکستان کی کپاس کی صنعت کے احیا اور اس کی طویل مدتی پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ کوششوں کے لیے ایک متفقہ کال کے ساتھ ہوا۔بحران سے نمٹنے کے لیے 15 رکنی کمیٹی کو کپاس کی پیداوار کو بحال کرنے کے لیے سفارشات مرتب کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ انہیں صورتحال کا جائزہ لینے اور اس شعبے کی مدد کے لیے پالیسی اور انتظامی اقدامات تجویز کرنے کے لیے 30 دن کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔مزید برآں، کمیٹی بین الاقوامی آلودگی کے پیرامیٹرز کو پورا کرنے کے لیے روئی کی گانٹھوں کی گریڈنگ اور معیاری کاری کو بہتر بنانے کے لیے حکمت عملی تلاش کرے گی۔
کمیٹی میں ٹیکسٹائل سیکٹر، محکمہ زراعت، اکیڈمی کے نمائندے اور سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے کپاس کے تجربہ کار کاشتکار شامل ہیں۔علاوہ ازیں سربراہ شعبہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی ، سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ،ملتان ساجد محمود نے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم واقعی کپاس کی پیداوار میں بہتری کے خواہاں ہیں، تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کپاس کا بحران محض بیج کی بہتری تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع تر زرعی، تجارتی اور پالیسیاتی چیلنج ہے۔ جب تک ہماری تمام تر توجہ صرف بیج پر مرکوز رہے گی اور دیگر اہم ترین عوامل کو نظرانداز کیا جاتا رہے گا، تب تک کپاس کی بحالی کے لیے کیے جانے والے اقدامات محض رسمی کارروائیاں ہی ثابت ہوں گی۔
ساجد محمود نے کہا کہ اس وقت ہمارے ہاں کپا س کی تحقیق وترقی کے لئے 22 سے زائد نجی و سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں، صوبائی محکمہ جات کثیر سرمایہ کاری کر رہی ہیں اربوں روپے زرعی بجٹ کی مد میں خرچ کیے جا رہے ہیں، لیکن پھر بھی کپاس کی پیداوار مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ اسی طرح نجی سیڈ کمپنیاں بھی R& D پر کافی خرچ کر رہی ہیں لیکن مطلوبہ نتائج پھر بھی حاصل نہیں ہو رہے۔یہ صورتِ حال اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہمارے پالیسی ڈھانچے، تحقیقی ماڈلز اور عملی حکمتِ عملیوں میں کوئی بنیادی اور ساختی خامی موجود ہے۔
ہمیں اپنی سابقہ غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ایک مربوط، سائنسی اور عملی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی، جہاں کپاس کی پیداوار کو ایک مکمل زرعی نظام کے طور پر سمجھا جائے اور ہر پہلو پر یکساں محنت کی جائے۔ اس کی بنیادی وجہ تحقیق کا غیر مربوط اور منتشر ہونا ہے۔ جب تک وفاقی سطح پر پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (PCCC) کو مستحکم اور فعال نہیں کیا جاتا، تب تک تحقیق کے ثمرات مکمل طور پر حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ مربوط اور منظم تحقیقی ڈھانچے کے بغیر کپاس کی پیداوار اور معیار میں مطلوبہ بہتری ممکن نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم پالیسی سازی میں اپنی یکطرفہ سوچ کو ترک کرکے ایک جامع، مربوط اور سائنسی اپروچ اپنائیں، تاکہ کپاس کی صنعت کو ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔کپاس کی بحالی اور ترقی کے لیے ہمیں دیگر ترقی یافتہ کپاس پیدا کرنے والے ممالک، خاص طور پر برازیل، چین، اور امریکہ کے کامیاب ماڈلز کا گہرائی سے تجزیہ کرنا ہوگا۔ یہ ممالک جدید تحقیق، ٹیکنالوجی، اور پالیسیوں کی مدد سے اپنی کپاس کی پیداوار میں نمایاں اضافہ کر چکے ہیں۔
ہمیں ان کے جدید تحقیقی طریقوں، بایوٹیکنالوجی اور حکومتی معاونت کے ماڈلز کو سمجھنا اور مقامی ضروریات کے مطابق اپنانا ہوگا تاکہ پاکستان میں بھی کپاس کی پیداوار میں ٹھوس اور پائیدار بہتری ممکن ہو سکے۔ پاکستان کاٹن بروکرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین میجر (ر)کاشف اسلام نے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (پی سی سی سی)کے 50 فیصد زرعی سائنسدانوں اور اسٹاف کی جبری برطرفی کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملکی معیشت پر خودکش حملہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف حکومت کپاس کی بحالی کے دعوے کر رہی ہے، جبکہ دوسری جانب ملک کے سب سے بڑے کاٹن ریسرچ ادارے کے ماہرین اور سائنسدانوں کو جبری بے روزگار کیا جا رہا ہے، جو کھلے تضاد اور غیر دانشمندانہ حکمت عملی کا مظہر ہے۔
اس فیصلے سے کپاس کی تحقیق و ترقی مکمل طور پر مفلوج ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں معیشت تباہی کی طرف گامزن ہو گی۔انہوں نے کہا کہ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے 11 مارچ کے اجلاس میں پی سی سی سی کے 50 فیصد زرعی سائنسدانوں اور اسٹاف کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس پر عملدرآمد کے لیے 30 اپریل کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ ایک گہری سازش کا حصہ لگتا ہے، جس کا مقصد کپاس کی بحالی کے حکومتی منصوبے کو ناکام بنانا اور زرعی تحقیق کو زوال پذیر کرنا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان بیرونی ممالک کے رحم و کرم پر آ جائے گا اور زرعی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں مزید بڑھ جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پی سی سی سی میں پہلے ہی 50 فیصد سے کم پوسٹوں پر کام ہورہا ہے جبکہ مزید کمی ملکی کپا س کے لئے تباہی ثابت ہوگی۔میجر (ر)کاشف اسلام نے کہا کہ پی سی سی سی کپاس کی تحقیق، جدید بیجوں کی تیاری، اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بنیادی خدمات فراہم کرتا ہے۔ اگر اس ادارے کو جان بوجھ کر مفلوج کیا گیا تو پاکستان کی 16-17 ارب ڈالر سالانہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ شدید متاثر ہو گی اور آئندہ پانچ سال میں برآمدات کم ہو کر 10 ارب ڈالر تک گر سکتی ہیں۔پاکستان کاٹن بروکرز ایسوسی ایشن نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس غیر دانشمندانہ اور معیشت دشمن فیصلے کو فوری طور پر واپس لے اور ان بیوروکریٹک عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے جو اس فیصلے کے پس پردہ ہیں۔
مزید برآں، حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ پی سی سی سی کے زرعی سائنسدانوں اور اسٹاف کی برطرفی کے فیصلے کو منسوخ کیا جائے، زرعی تحقیق کے اداروں کو مضبوط کیا جائے اور ان کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے، کپاس کی بحالی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماہرین کو تحفظ دیا جائے، اور زرعی سائنسدانوں کی تنخواہوں اور ریسرچ فنڈز کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جائے۔میجر (ر)کاشف اسلام نے کہا کہ پی سی سی سی کے ماہر زرعی سائنسدانوں اور محققین کی جبری برطرفی، نہ صرف ملکی معیشت کے لیے تباہ کن ہے بلکہ کپاس اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بقا کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ اگر یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو اس کے دور رس منفی نتائج برآمد