رائے احمد خاں کھرل

رائے احمد خاں کھرل کا یومِ شہادت

اوکاڑہ

(شیر محمد)

آج رائے احمد خاں کھرل کا یومِ شہادت ہے.

رائے احمد خاں کھرل (1776ء-1857ء) 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران، نیلی بار کے علاقے میں مقامی قبیلوں کی برطانوی راج کے خلاف بغاوت (گوگیرہ بغاوت) کے رہنما اور سالار تھے۔ 21 ستمبر کو انگریزوں اور سکھوں کے فوجی دستوں نے گشکوریاں کے قریب ‘نورے دی ڈل’ کے مقام پر دورانِ نماز احمد خان پر حملہ کر دیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔

تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اگر راوی کی روایت کو کسی کھرل پر فخر ہے تو وہ رائے احمد خان کھرل ہے جس نے برصغیر پر قابض انگریز سامراج کی بالادستی کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا اور بالآخر ان کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی جان تک دے ڈالی۔

رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ سے تھا جو اب ضلع فیصل آباد میں واقع ہے۔ 1776ء میں رائے نتھو خاں کے گھر پیدا ہونیوالے رائے احمد خاں میں انگریز دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
1857ء کی جنگ آزادی کے دوران جب دلی میں قتل و غارت کی گئی اور انگریزوں نے اس بغاوت کو کسی حد تک دبا دیا، تو یہ آگ پنجاب میں بھڑک اُٹھی۔ جگہ جگہ بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے۔ انگریز سرکار کی جانب سے صدر مقام میں لارڈ برکلے نامی گورے کو اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا گیا ۔ جون کی ایک صبح، برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا۔ راوی کے اس پار سے احمد خان کھرل اور سارنگ خان، برکلے کو ملے۔ انگریز افسر نے بغاوت سے نبٹنے کے لیے گھوڑے اور جوان مانگے۔ احمد خان نے جواب دیا؛
“صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا” اور یہ کہہ کر واپس چلا گیا. ایک انگریز افسر کی سرکاری چٹھی کے مطابق ڈرانے دھمکانے کے جواب میں احمد خاں کھرل کہنے لگا کہ اس نے حکومت برطانیہ کی اطاعت کو رد کر دیا ہے اور اب خود کو شہنشاہ دہلی کی رعایا تسلیم کرتا ہے جس سے اسے تمام ملک میں بغاوت کرانے کے احکامات ملے ہیں۔
اس کے بعد برکلے نے کھرلوں اور فتیانوں کو اس وسیع پیمانے پر پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیا کہ گوگیرہ ایک بہت بڑ ی جیل میں بدل گیا۔ دہشت پھیلانے کیلئے کچھ مجاہدوں کو پھانسی بھی دے دی۔
برکلے یہ کارروائی کر رہا تھا تو دوسری طرف احمد خان کھرل نے راوی پار جھامرہ رکھ میں بسنے والی برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار کر لیا چنانچہ تمام مقامی سرداروں کی قیادت کرتے ہوئے رائے احمد خاں کا گھوڑ سوار دستہ 26 جولائی 1857ء کو رات کی تاریکی میں گوگیرہ جیل پر حملہ آور ہوا اور تمام قیدیوں کو چھڑالے گیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ خود قیدی بھی بڑی بے جگری سے لڑے۔ اس لڑائی میں پونے چار سو انگریز سپاہی مارے گئے۔ اس واقعہ سے انگریز انتظامیہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ رائے احمد خان گوگیرہ جیل پر حملہ کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت آس پاس کے جنگلوں میں جا چھپا۔ برکلے نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے احمد خان کے قریبی رشتہ داروں ، عزیزوں اور بہو بیٹیوں کو حراست میں لے لیا اور پیغام بھیجاکہ وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دے ،ورنہ اس کے گھر والوں کو گولی مار دی جائے گی۔ اس پر رائے احمد خان کھرل پہلی مرتبہ گرفتار ہوا، مگر فتیانہ ، جاٹوں اور وٹوؤں کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی کارروائیوں کے پیش نظر احمد خان کو چھوڑ دیا گیا البتہ اس کی نقل و حرکت کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک محدود کر دیا گیا۔
بات گھر تک آ پہنچی تو مقامی سرداروں نے اکٹھ کیا۔ نورے کی ڈل نامی اس جگہ پہ، راوی کے سب سردار اکٹھے ہوئے۔ ان میں وٹو، قریشی، مخدوم اور گردیزی بھی شامل تھے۔ انگریزوں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں کچھ لوگ تو احمد خان کے ساتھ ہو گئے اور کچھ نے اس کو مشورہ دیا کہ سرکار سے جنگ نہیں کی جا سکتی ۔
اکٹھ میں بڑھ بڑھ کر بولنے والے کمالیہ کے سردار سرفراز کھرل نے رات پڑتے ہی گھوڑیاں سیدھی کیں اور گوگیرے بنگلے جا پہنچا۔ رات کے دو بجے تھے جب برکلے کو جگا کر سب کچھ بتا دیا۔

اگلی صبح، بانگوں سے پہلے بگل بجے اور باغیوں کی بیخ کنی کے لیے کیپٹن بلیک کی کمان میں رسالے کا دستہ روانہ ہوا۔ دوسرے پہر مزید کمک کی صورت ایک اور انگریز افسر، گشکوری کے جنگل جا پہنچا اور آخر میں برکلے بھی آن ملا۔
دراصل سردار سرفراز کی رائے احمد خان کھرل سے خاندانی دشمنی تھی۔
اس مُخبری پر برکلے نے چاروں طرف اپنے قاصد دوڑائے۔ برکلے خود گھڑ سوار پولیس کی ایک پلٹن لے کر تیزی کے ساتھ راوی کے طرف بڑھا تاکہ رائے احمد خان کھرل کو راستے میں ہی روکا جاسکے۔ اس دوران حفاظتی تدابیر کے طور پر گوگیرہ سے سرکاری خزانہ، ریکارڈ اور سٹور تحصیل کی عمارت میں منتقل کر د…