لاہور(رپورٹنگ آن لائن)پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پروفیسر الفرید ظفرنے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی، سائنس کی ترقی اور نت نئی ایجادات نے جہاں انسان کیلئے راحتوں اور آسانیوں کے سامان پیدا کئے ہیں وہیں اس ترقی اور ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال نے انسانی صحت کیلئے بہت سے چیلنجز کو بھی پیدا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آنکھوں کی بیماریوں، نظر کی کمزوری اور نا بینا پن بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جسکی بنیادی وجہ احتیاطی تدابیر کے بغیر کمپیوٹر کا بے تحاشہ استعمال، بچوں اور بڑوں کے ہاتھ میں دن رات موبائل فون، جسمانی ورزش سے اجتناب، کھیل کود کا نہ ہونا اور ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر ورکنگ شامل ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی یو م بصارت کی مناسبت سے شعبہ امراض چشم کے زیر اہتمام آنکھوں کی بیماریوں، ان سے بچاؤ اور علاج معالجہ بارے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عالمی ادارہ صحت نے رواں سال کا تھیم “Love Your Eyes at Work “ہے۔ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ شعبہ امراض چشم پروفیسر طیبہ گل ملک کی میزبانی میں ہونے والی تقریب میں پروفیسر ڈاکٹر جود ت سلیم، پروفیسر ڈاکٹر محمد شاہد، پروفیسر ڈاکٹر فہیم افضل، ڈاکٹر عائشہ، ڈاکٹر رابعہ،ڈاکٹر عروج امجد، ڈاکٹر عدیل، ڈاکٹر ثنا جہانگیر، ڈاکٹر آمنہ جبران، کنیز فاطمہ، زاہرہ امبرین کے علاوہ صحت یاب ہونے والے بچوں اور اُن کے والدین نے بھی شرکت کی جنہوں نے ہیلتھ پروفیشنلز کیلئے خصوصی دعائیں کیں اور جنرل ہسپتال انتظامیہ کی تعریف کی۔
ڈاکٹر عروج امجد نے تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ROPاور ریٹینو بلاسٹوما میں مبتلا ہزاروں بچوں کی سکریننگ کی گئی اور جنرل ہسپتال کی ٹیم نے سینکڑوں بچوں کا کامیابی کے ساتھ علاج کیا گیا جبکہ دیگر کا علاج معالجہ جاری ہے۔ ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ شعبہ امراض چشم پروفیسر ڈاکٹر طیبہ گل نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ جنرل ہسپتال میں آئی کے تینوں یونٹس میں جدید طبی آلات نصب ہیں اور انتہائی قابل ڈاکٹرز بچوں سے لے کر بڑوں تک آنکھوں کے پیچیدگہ آپریشن کر رہے ہیں جو حوصلہ افزا امر ہے۔
پرنسپل پی جی ایم آئی نے بتایا کہ ذیابیطس، بلڈ پریشر، آنکھوں کے مسلز میں کھچاؤ، پتلیوں کا سکڑنا اور دیگر پیچیدگیاں جنم لے رہی ہیں نیز ذیابیطس اور بلڈ پریشر براہ راست آنکھوں کی صحت کو خطرناک حد تک متاثر کر رہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر خصوصا پاکستان میں آنکھوں کے امراض، سفید اور کالا موتیا اورنابینا پن میں روز افزوں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔پروفیسر الفرید ظفر کا کہنا تھا کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی بینائی ذیادہ تیزی سے کمزور ہوتی ہے۔ عموماً خواتین ہی اینیمیا، وٹامن ڈی کی کمی اور ڈپریشن کا شکار رہتی ہیں، جس کے باعث انہیں بڑھاپے میں کئی پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد مستند ماہر امراض چشم رجوع کر کے ادویات تجویز کروائیں۔
طبی ماہرین نے بصری امراض پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ذیابیطس کا مرض بینائی کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ آنکھ کے پردے پر ذیابیطس کا اثر آہستہ آہستہ ہوتا ہے اور عینک کا نمبر بڑھتا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 66فیصد موتیا، 6فیصد کالے پانی اور 12فیصد افراد بینائی کی کمزوری کا شکار ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ طبی ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ ڈیجیٹل اشیاء کمپیوٹر، موبائل، ٹیلی ویژن ودیگر چیزیں امراض چشم کا باعث بنتی ہیں اور دماغی کارکردگی کے ساتھ ساتھ نیند پر بھی منفی اثر ڈالتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا مساج کیا جائے، ، ہاتھوں کو صابن سے دھوئیں،ڈیجیٹل اشیاء کو استعمال کرنے سے جس قدر ممکن ہو اجتناب کیا جائے۔ پرنسپل پی جی ایم آئی پروفیسر الفرید ظفر نے اس تقریب کے انعقاد پر شعبہ امراض چشم کی کاوشوں کو سراہا اور صحت یاب ہونے والے بچوں کے ساتھ گھل مل گئے جبکہ تقریب کے اختتام پر کیک بھی کاٹا گیا۔