خواجہ سراوں

خواجہ سراوں سے حکومت کی “زیادتی” چشم کشا رپورٹ

شہباز اکمل جندران۔

ملک میں عموما” اور پنجاب خصوصا” خواجہ سراوں کی حالت دن بہ دن ناگفتہ بہ ہونے لگی ہے۔
خواجہ سراوں کو سرکاری اداروں میں نوکری دی جارہی ہے نہ ہی تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی آئینی حقوق دیئے جارہے ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2012 میں اپنے ایک فیصلے میں ملک میں خواجہ سراوں کو عام شہری کی طرح بنیادی آئینی حق دینے کا حکم جاری کیا تھا۔

اسی طرح 2018 میں ملک میں خواجہ سراوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے Transgender Persons
(Protection of Rights)
Act 2018نافذ کیا گیا۔
جس میں خواجہ سراوں کو ملازمت کا حق، تعلیم کا حق، صحت کا حق،ووٹ کا حق، وراثت کا حق،جائیداد کا حق اور دیگر حقوق سے نوازا تاہم یہ قانون بھی کتاب میں بند ہو کر رہ گیا ہے۔

اور سرکاری اداراں میں خواجہ سراوں کو ملازمت کے مواقعے دیئے جارہے ہیں نہ ہی ان کے دیگر حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جارہا ہے۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی 20 کروڑ 76 لاکھ ہے جس میں مردوں کی مجموعی تعداد 10 کروڑ 60 لاکھ خواتین کی تعداد 10 کروڑ 13 لاکھ جبکہ ملک میں خواجہ سراوں کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 21 ہزار 744ہے۔

سپریم کورٹ کے احکامات اور خواجہ سراوں کے حقوق کے تحفظ کے قانون 2018 کے نفاذ کے باوجود پنجاب پولیس نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران ایک بھی خواجہ سرا کو ملازمت نہیں دی ۔

پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ شارکمال صدیقی کہتے ہیں کہ 2014 سے آج تک پنجاب پولیس میں ایک بھی خواجہ سرا کو بھرتی نہیں کیا گیا۔

جبکہ اے آئی جی لیگل، ایڈمنسٹریشن و سکیورٹی توصیف حیدر کاکہنا ہے کہ پنجاب بھر میں کسی بھی ریجن میں خواجہ سرا کو پولیس میں نوکری نہیں دی گئی۔