اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن) وفاقی حکومت نے موبائل کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز واپس لیتے ہوئے منی بجٹ نہ لانے کا اعلان کیا ہے ،
وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ حکومت کی ضمانت پر کمرشل بینک غریب عوام کو بلا امتیاز قرضے فراہم کریںگے،کاشتکار کو ڈیڑھ لاکھ روپے ہر فصل کا دیں گے، ٹریکٹر لیز کرنے کے 2 لاکھ روپے دیں گے ، شہری علاقوں میں غریب گھرانوں کو5 لاکھ روپے تک کا بلا سود قرضہ دیں گے تاکہ وہ کاروبار کرسکے۔ہم ہر خاندان کو اپنی چھت دیں گے اور اس کی حد 20 لاکھ روپے تک ہے،ہماری برآمدات جی ڈی پی کا صرف 8 فیصد ہے، ہما رے لئے ضروری ہے کہ آئندہ 8 سے 10 سال کے درمیان بر آمدات کو جی ڈی پی کے 20 فیصد تک لے جائیں،
ہماری سیونگز کی شرح 15 سے 16 فیصد ہے اور ہمیں اسے بڑھانا ہوگا، ریونیو کا ہدف آئندہ سال کے لیے 58 کھرب کردیا ہے، یہ ہدف جا رہانہ ضرور ہے لیکن ہم اس ہدف پورا کر لیں گے، اگر ہم نے یہ کرلیا تو ایک مالی خلا ہمیں ملے گی جس کو ہم زراعت میں استعمال کرسکیں گے،ہم برآمدات میں جو مراعات دے سکتے تھے دی ہیں، ہم صرف ٹیکسٹائل تک محدود نہیں رہے بلکہ خصوصی اقتصادی زونز سے ٹیکسز ختم کردیے ہیں تاکہ چین سے سرمایہ کار یہاں آئے اور چیزیں بنا کر برآمد کریں اور تاکہ ڈالر کمائیں،
سی پیک کو صنعت سازی کے لئے استعمال کریں گے،ہم آئی ٹی میں نمو کو بڑھانا چاہتے ہیں جو اس وقت 40 سے 45 فیصد پر ہے اور اسے 100 فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں،برآمدات کے شعبے میں تقریباً تمام خام مال پر ٹیکس صفر کردیے ہیں،پاور سیکٹر کو مالیاتی طور پر مستحکم بنانا ہے،سعودی عرب کے ساتھ انڈراسٹینڈنگ ہوگئی ہے اور سعودی عرب سے ادھار تیل میں کی رعایت لیں گے۔ موبائل کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس پر ٹیکس عائد نہیں ہوگا،منی بجٹ نہیں لائیں گے،ہم نے گروتھ بجٹ پیش کیا ہے اور ہمارا چیلنج ہے گروتھ کو مستحکم کرنا ہے،
ہفتہ کو وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے وزیر صنعت و پیداوار خسر و بختیار اور مشیر تجارت عبد الرزاق داﺅ اور دیگر اعلی حکام کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ موبائل کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس پر ٹیکس لگانے کی وزیراعظم اورکابینہ نے مخالفت کی ہے جس کے بعد ان سب پر ٹیکس عائد نہیں ہوگا،ہم نے گروتھ بجٹ پیش کیا ہے اور ہمارا چیلنج ہے گروتھ کو مستحکم کرنا ہے، برآمدات بڑھا کر ہمیں ڈالر کمانے ہیں، آئندہ مالی سال 500 ارب روپے اضافی ٹیکس جمع کریں گے جب کہ بجلی اور گیس کے بلوں کے ذریعے نان فائلر تک پہنچ جائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ایک سال میں 500 سے 600 ارب روپے دے، عوام کو قرضے ہول سیل فنانسنگ، کمرشل بینکوں سے کرا رہے ہیں۔ اخوت نے ڈیڑھ سو ارب روپے کے چھوٹے قرضے دیے ہیں جن کی ریکوری98سے 99 فیصد تک ہے۔ کمرشل بینک جب غریب عوام کو قرضے دیں گے تو ہم انہیں ضمانت دیں گے کہ یہ پیسے واپس آئیں گے۔
یہ قرضہ جات سیاسی بنیادوں پر یا کسی مخصو ص علاقوں میںنہیں دئیے جائیں گے،ثانیہ نشتر ہر خاندان کی آمدن کے حوالے سے ایک سروے کر رہی ہیں، اس کے مطابق یہ قرضے دیے جائیں گے، 4ملین سب سے نچلے درجے کے گھرانوں کو اس میں شامل کریں گے،غریب کے ساتھ ہم نے سیاست نہیں کرنی ہے ، وہ ملک کے کسی بھی کونے میں ہو۔ غیر سیاسی بنیادوں پر سروے کیا جار ہا ہے،کاشتکار کو ڈیڑھ لاکھ روپے ہر فصل کا دیں گے، ٹریکٹر لیز کرنے کے 2 لاکھ روپے دیں گے اور شہری علاقوں میں غریب گھرانوں کو5 لاکھ روپے تک کا بلا سود قرضہ دیں گے تاکہ وہ کاروبار کرسکے۔ہم ہر خاندان کو اپنی چھت دیں گے،
اس کی حد 20 لاکھ روپے تک ہے کیونکہ شہری علاقوں میں زمینیں مہنگی ہیںجبکہ دیہاتی علاقوں میں یہ سات لاکھ تک کافی ہو گا،صحت کارڈ لوگوں کو دیں گے، جب غریب کے گھر کوئی بیمار ہوجاتا ہے تو انہیں علاج کے لیے پیسوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور انہیں اپنی چیزیں بیچنی پڑ جاتی ہیں تاہم صحت کارڈ سے ان کے مسائل کا حل ہوگا۔ہم چاہتے ہیں کہ منظم انداز سے ضرور ت کے مطابق اِسکل ڈیولپمنٹ پر کام کریں تاکہ غریبوں کو روزگار مل سکے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے معاشی نمو کو سب تک منتقل کیا ہے اور اس بجٹ میں پی ایس ڈی پی، صنعتوں زراعت وغیرہ سب کو مراعات دی ہیں تاہم اب ہمارا چیلنج مستحکم نمو لانا ہے۔
ہم پائیدار ترقی لانا چاہتا ہیں تاکہ غریب آ دمی کو اس کا فائدہ پہنچے ۔ترقیاتی بجٹ اس کے لئے بڑھایا ہے اور صنعت اور ذراعت کو مراعات دی ہیں، ہم نے اسٹڈی کرائی ہے اورملک کے قابل اکانومسٹ کو اکٹھا کرکے میں ان سے یہ سوال کیا تھا کہ ہمارے ملک کی مستحکم نمو کیوں نہیں ہوتی تو انہوں نے کہا تھا کہ جب آپ کی معیشت میں طلب بڑھتی ہے تو درآمد بڑھتی ہے اور برآمد ات نہیں بڑھتی جس سے ڈالر کم ہوتے ہیں اور وہ آپ چھاپ نہیں سکتے تو آپ کی مالیاتی صورتحال کمزور ہوجاتی ہے اور آپ کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
اسی وجہ سے ہم ہر وقت آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں، ہمیں ڈالر کمانے ہیں جو ہم برآمدات سے ہی کماسکتے ہیں۔ہماری برآمدات جی ڈی پی کا 8 فیصد ہے، ہما رے لئے ضروری ہے کہ آئندہ 8 سے 10 سال کے درمیان اسے 20 فیصد تک لے جائیں۔ماہرین نے یہ تجویز دی تھی کہ ہمیں اپنی سیونگز بڑھانی ہوں گی اس کے ذریعے سرمایہ کاری ہوگی۔ جب تک سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو معیشت کیسے بڑھے گی، فی الوقت ہماری سیونگز کی شرح 15 سے 16 فیصد ہے اور ہمیں اسے بڑھانا ہوگا۔
گروتھ کے لئے ہمار ا پہلا بڑا مسئلہ ہے کہ ہمارے پاس ریونیو نہیں، ریونیو ایف بی آر اور صوبے اکٹھا کرتے ہیں، ہم نے اس پر کافی چیلنجنگ ٹاسک دیا ہے کہ وہ 47 کھرب تک اکٹھا کریں گے۔کہا جارہا ہے کہ یہ کیسے ہوگا، ہم یہ پورا کرلیں گے، جیسا خان صاحب کہتے ہیں، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ہم نے اس ہدف کو اسے آئندہ سال کے لیے 58 کھرب کردیا ہے، تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ رسک ہے، ہم یہ ہدف پورا کر لیں گے ،ہم نے بہت لوگوں کی معلومات حاصل کرلی ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے، ہم اب ان کے پاس جائیں گے۔
آئی ایم ایف سے یہی مذاکرات ہوئے ہیں کہ جو ٹیکس دے رہے ہیں ان پر ٹیکس نہیں لگائیں گے بلکہ مزید لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے۔ 10ہزار پی او ایس استعمال کیے ہیں جس سے 150 سے 125 ارب کی فروخت ریکارڈ کی ہے، یہ کچھ بھی نہیں، صرف امتیاز اسٹور کی فروخت 2 سے 3 سو ارب کی ہے مطلب انہوں نے پورے ظاہر ہی نہیں کیے میں اور باقیوں کا میں نام نہیں لینا چاہتا ہوں۔
ہم چاہتے ہیں کہ مزید اداروں کو اِس پی او ایس نظام میں لے کر آئیں۔پی او ایس پر آنے کے بعد ریٹیلر کچی پرچی پر کام کرنا شروع کردیں گے تو اسے روکنے کے لیے صارفین سے پکی پرچی طلب کریں گے اور اس پر 25 کروڑ روپے تک کے انعامات دیں گے جسے بڑھا کر ایک ارب روپے تک لے کر جائیں گے۔صارف خود جاکر ان کا گلا پکڑے گا کہ ہمیں پکی پرچی چاہیے ہیں، یہ ترکی اور دیگر ممالک میں بھی طریقہ کار اپنایا جاچکا ہے۔ 4 علاقوں کو ٹریک اینڈ ٹریس میں لے کر آئیں گے، ہم کرسکتے ہیں گزشتہ سال بغیر پی او ایس کے 160 ارب اکٹھا کیا تھا ہم نے۔
ہمارا ریونیو ہدف حقیقت پسندانہ اور جارحانہ ضرور ہے تاہم اگر ہم نے یہ کرلیا تو ایک مالی خلا ہمیں ملے گی جس کو ہم زراعت میں استعمال کرسکیں گے۔ہمارا ملک خوراک کی کمی کا شکار ہے اور اس کا مطلب ہے کہ ہم اہم چیزیں درآمد کر رہے ہیں یہ کسی زمانے میں ہم بر آمد کرتے تھے ، ہم نے فصلوں پر توجہ نہیں دی اور اب ہم اس پر توجہ دیں گے۔ وزیر اعظم کے منصوبے کے مطابق جو مراعات دینی تھیں دی ہیں اور آگے ضرورت پڑی تو اور بھی دیں گے۔ہم برآمدات میں جو مراعات دے سکتے تھے دی ہیں، ہم صرف ٹیکسٹائل تک محدود نہیں رہے بلکہ خصوصی اقتصادی زونز سے ٹیکسز ختم کردیے ہیں تاکہ چین سے سرمایہ کار یہاں آئے اور چیزیں بنا کر برآمد کریں اور تاکہ ڈالر کمائیں۔
ہم نے بجلی اور انفراسٹرکچر سمیت اقتصادی زونز پر خرچے کردیے ہیں اور ہمیں یہ پیسے واپس کرنے ہیں اگر ڈالر نہیں کمائیں گے تو پیسے کیسے واپس کریں گے۔ سی پیک کو صنعت سازی کے لئے استعمال کریں گے ،ہم آئی ٹی میں نمو کو بڑھانا چاہتے ہیں جو اس وقت 40 سے 45 فیصد پر ہے اور اسے 100 فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں۔برآمدات کے شعبے میں تقریباً تمام خام مال پر ٹیکس صفر کردیے ہیں کیونکہ زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار صنعتیں دیتی ہیں۔
اس کے علاوہ ہاوسنگ کا شعبہ بھی ترقی کر رہا ہے اور بینک مطمئن ہیں کہ وہ پیسے جو دیں گے وہ ریکور ہوجائیں گے۔ہماری مارک ایپ کی شرح 12 سے 14 فیصد تھی جو لوگوں کے لیے مناسب نہیں تھی کیونکہ کرائے کو اور قسطوں کا موازنہ کیا جاتا تھا تو کرایہ 10 ہزار ہو تو قسط 20 ہزار ہوتی تھی۔
عمران خان نے اس پر چھوٹ دے کر لوگوں کی پہنچ تک اسے لے کر آئے ہیں اور امید ہے کہ یہ شرح مزید نیچے جائے گی اور مڈل کلاس کو بھی گھر مل سکیں گے۔سب سے زیادہ ہم نے پاور سیکٹر پر سبسڈیز میں اضافہ کیا ہے اور تمام ڈسکوز کو ٹھیک کرکے ان کی نجکاری کردیں گے تاکہ ہماری نمو صلاحیتی ادائیگی کا استعمال شروع کردیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں 5 سے 7 سال کا وقفہ چاہیے جس میں ہم ان صلاحیتی ادائیگی کو موخر کرسکیں۔
پاور سیکٹر کو مالیاتی طور پر مستحکم بنانا ہے، اگر ایسا نہ کریں گے تو ہمیں ٹرانسمیشن میں پیسے جو درکار ہیں اس میں پرائیوٹ سیکٹر پیسے نہیں ڈالے گا۔شوکت ترین نے کہا کہ ہم منی بجٹ نہیں لائیں گے، انکم ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے، ڈویلپنگ ملکوں میں ان ڈائریکٹر ٹیکس بڑھتے ہیں جب کہ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔انہوں نے کہاکہ ہماری آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جاری ہے، ہماری منزل ایک ہے، آئی ایم ایف چاہتا ہے ہم مستحکم گروتھ کی جانب جائے۔
شبر زیدی کو انتہائی سخت ٹارگٹ دیا گیا اور وہ فلاپ ہونا ہی تھا جب کہ ہماری سعودی عرب کے ساتھ انڈراسٹینڈنگ ہوگئی ہے اور سعودی عرب سے ادھار تیل میں کی رعایت لیں گے۔وفاقی وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار نے کہاکہ معیشت کا پہیہ اس وقت تک نہیں چلے گی جب تک صنعتیں نہیں چلیں گیں، سمال میڈیم صنعتوں کو ترقی دینا ہے، ٹریکٹرز کی پیداور بڑھے گی تو چھوٹی صنعتیں جو پارٹس بناتی ہیں ان کی پروڈکشن بھی بڑھے گی، 9 فیصد کی نمو رواں سال رہی ہے تاہم ہم نے چیلنج خود کو 6 فیصد کا دیا ہے۔
پرائیوٹ سیکٹر انویسٹمنٹ اور سیونگز کی شرح میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں آئیں گی ۔برآمدات کو تقویت دینے کے لیے انقلابی اقدامات کیے گئے ہیں، صنعتوں کا پہیہ چلنے کے لیے بجلی اور گیس کی ضرورت ہے۔ معیشت کا پہیہ تب ہی چلے گا جب صنعتون کا پہیہ چلے گا۔آٹو سیکٹر آدھی صلاحیت پر چل رہا ہے، 800 سی سی سے کم کی گاڑیوں کی قیمت کم کر رہے ہیں اور باقی سی سیز پر بھی بات چیت چل رہی ہے اور آٹو پالیسی بڑی جامع ہوگی۔ہمارا فلسفہ میک اِن پاکستان کا ہے، گلوبل ایکسپورٹ ویلیو چین میں پاکستان کے آٹو سیکٹر کو ڈالنا ہے۔ہمارے معاشی حب کراچی میں زمین بہت مہنگی ہے، کراچی میں 1500 ایکڑ کا خصوصی زون پی ایس ڈی پی میں رکھا گیا ہے۔
برآمدات پر مبنی صنعتیں یہاں آئیں اور انہیں زمین لیز پپر دی جائے گی۔صنعتی نمو میں ہم انجینئرنگ پر بھی توجہ دے رہے ہیں، ہم بھلے پوری گاڑی برآمد نہ کرسکیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ کم از کم اس کے کچھ پارٹس تو برآمد کریں۔ملک کے اندر مستحکم نمو رکھنا ہے تو برآمدات کو بڑھانا ہوگا۔وفاقی وزیر تجارت عبدالرزاق داو¿د نے کہاکہ آئندہ سال ہماری تجارت اور سرمایہ کاری بہتر ہوگی۔ ہماری مرکزی حکمت عملی دو حصوں میں ہے ایک برآمدات اور ایک میک اِن پاکستان۔ہمیں ابھی بھی ڈالرز چاہیے ہیں، ہمیں ٹیکسٹائل پر انحصار نہیں کرنا، اس صنعت نے بہت اچھا پرفارم کیا اور اسے اگلے سال ہم نے 20 ارب تک پہنچنے کا ہدف دیا ہے۔
ہماری توجہ انجنئیرنگ، فارما، آئی ٹی، موبائل فونز، جوتے، فوڈ پروسیسنگ وغیرہ ہیں، رواں سال ان میں سے فارماسیوٹیکل کے نتائج اچھے آئے ہیں اور آئندہ سال اس پر زیادہ توجہ دیں گے۔برآمدات سے پہلے ہمیں چیزیں پاکستان میں بنانی ہوں گی، پچھلے سال ہم نے خام مال پر ڈیوٹیز کم کی تھیں اور اس سال سب سے زیادہ ڈیوٹیز میں کمی کی ہے۔ایک ایک آئٹم پر ڈیوٹی کم کی ہے، کافی سالوں سے پاکستان میں کام کر رہا ہوں کبھی اتنی کمی نہیں دیکھی۔اس کا پھل رواں سال اور آئندہ سال سامنے آئے گا، پاکستان میں چیزیں بنیں گی اور کاروبار کی لاگت کم ہوجائیں گی اور ہماری برآمدات بڑھیں گی