اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن ) وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ 60 کی دہائی میں پاکستان ایشیا کی چوتھی بڑی معیشت تھی، پاکستان کی معیشت کوریا اور تھائی لینڈ سے بڑی تھی، چوتھی بڑی معیشت ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ہماری منصوبہ بندی مضبوط تھی، 1972-73 میں نیشنلائزیشن اور پھر افغان جنگ نے معیشت کو نقصان پہنچایا، اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے معیشت پر توجہ نہیں دی۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سرمایہ کاری، صنعت اور برآمدات کے حوالے سے منعقد کی گئی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پھر ہمارا نام 20 بڑی معیشتوں میں بھی نہ آسکا، پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو کرنٹ اکاونٹ خسارہ، افغانستان کی صورتحال اور عالمی مہنگائی کے چیلنجز کا سامنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے اقدامات کا آغاز کیا ہے جبکہ ہماری معیشت اس وقت 5 فیصد کی شرح نمو سے آگے بڑھ رہی ہے۔ شوکت ترین نے کہا کہ ترسیلات زر بھیجنے والے بیرون ملک پاکستانیوں کے شکر گزار ہیں، شرح سود کو بڑھانے کا مقصد معیشت کو بہتر کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈالرز خریدنے پڑتے ہیں، ڈالرز نہ ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف کےپاس جانا پڑا، اس وقت 4 فیصد پائیدار شرح نمو ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ سیاحت، آئی ٹی کے شعبوں پر بھی توجہ دینی ہوگی، ہمارے شمالی علاقے خوبصورت ہیں وہاں سیاحت کے فروغ کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان کا مالی گیپ 40 ارب ڈالر کا ہے، یہ بھی شکر ہے کہ 30 ارب ڈالر کی ترسیلات زر آتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ زرعی شعبے کی بہتری پر توجہ دے رہے ہیں اگر نہ دی تو تحفظ خوراک کا مسئلہ ہوگا۔