چینی عوام 44

جاپان ، ایشیا پیسیفک خطے کو کہاں لے جا رہا ہے؟

بیجنگ (رپورٹنگ آن لائن) جاپان کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ کی فتح کی اسیویں سالگرہ اور تائیوان کی جاپانی تسلط سے آزادی کی اسیویں سالگرہ کے اس تاریخی موقع پر، جاپانی دائیں بازو کی قوتوں کی خطرناک کارروائیوں کا سلسلہ مشرقی ایشیا کی پرامن فضا پر گہرا سایہ ڈال رہا ہے۔

تائیوان کے بارے میں جاپانی وزیر اعظم سانائے تاکائیچی کے کھلم کھلا غلط بیانات اور آبنائے تائیوان کے معاملے میں ممکنہ فوجی مداخلت سے لے کر اپنے ملک اور اس کے آس پاس کی سمندری اور فضائی حدود میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی مشترکہ فوجی مشقوں تک، اور چین کے ” فوجیان ” ائیر کرافٹ کیرئیر کا نشانہ بننے کا واویلا کرنے سے لے کر ریوچھیو جزائر میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے فضائی دفاعی میزائل کی تعیناتی تک ، جاپان کی جانب سے جان بوجھ کر فوجی تصادم اور علاقائی کشیدگی کو ہوا دینے کے اقدامات نے پہلے ہی امن کی لکیر کو عبور کر لیا ہے اور یہ ایشیا پیسیفک کی سلامتی کے لیے ایک بڑا پوشیدہ خطرہ بن گیا ہے۔

جاپان کی عسکریت پسندی کوئی عارضی جوش نہیں ہے بلکہ امن کے راستے سے ہٹنے کی کوشش میں ایک اسٹرکچرل تبدیلی ہے۔ جاپان کے دفاعی بجٹ میں مسلسل چودہ سالوں سے اضافہ جاری ہے، 2025 کا دفاعی بجٹ 8.7 ٹریلین ین (تقریباً 55 بلین امریکی ڈالر) تک پہنچ گیا ہے جو ایک نئی بلند ترین سطح ہے۔ جاپان مالی سال 2027 تک جی ڈی پی کے 2 فیصد کے حساب سے دفاعی اخراجات کے ہدف کو حاصل کرنے کا عزم رکھتا ہے ۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ جاپان نے ” دفاع پر پابندی ” کے اصول کو مکمل طور پر ترک کر کے “تین سکیورٹی دستاویزات میں ترامیم ” کے ذریعے مشترکہ آپریشنز کمانڈ قائم کی ،اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی استعداد کو فروغ دیا ۔

اس طرح کے اقدامات سے جاپان بتدریج دفاع سے جارحیت کی جانب اپنی تزویراتی تبدیلی مکمل کر رہا ہے۔ خلائی سیٹلائٹ کنسٹلیشن کی تعمیر سے لے کر نیٹ ورک جنگ کی صلاحیتوں کو بڑھانے تک، بغیر پائلٹ کے جنگی نظام کی تعیناتی سے لے کر جنوب مغربی جزائر میں ‘کثیر سطحی مزاحمتی سسٹم’ کی تعیناتی تک، جاپان ایک مکمل جارحانہ عسکری نظام تیار کر رہا ہے، جبکہ “امن کا آئین” پہلے ہی محض ایک کاغذی دستاویز بن چکا ہے۔

اس خطرناک تبدیلی کے پیچھے جاپان کی دائیں بازو کی عسکریت پسند قوت کی سازش ہے۔سانائے کاتائیچی حکومت نے انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر آئینی ترمیم کے عمل کو آگے بڑھایا،اور فوجی توسیع کو جائز قرار دینے کے لیے “امن کے آئین “کے آرٹیکل نو کی ‘جنگی طاقت نہ رکھنے’ کی شق کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ تائیوان کے بارے میں اس کے غلط تبصرے اتفاقیہ نہیں ہیں ، بلکہ یہ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے اور “چین پر دباو ڈالنے کے لیے تائیوان کو استعمال کرنے” کی حکمت عملی کی تکمیل کے لیے جان بوجھ کر کی جانے والی اشتعال انگیز کارروائیاں ہیں۔ جیسا کہ سابق جاپانی وزیر اعظم یوشی ہیکو نودا نے کہا کہ “چین-جاپان تعلقات میں موجودہ تناؤ وزیر اعظم سانائے کاتائیچی کے غلط بیانات سے پیدا ہوا ہے۔

” اور بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ جاپان “تین غیر جوہری اصولوں” کو ترک کرنے اور مہلک ہتھیاروں کی برآمد کو قانونی حیثیت دینے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ یہ اقدامات ماضی کےعسکریت پسندی کے توسیع پسندانہ راستے سے مماثلت رکھتے ہیں، تو کیسے ان ایشیائی ممالک کو جو کبھی اس کی جارحیت کا شکار رہے تھے ، ہوشیار نہ رہنے دیا جائے؟

بین الاقوامی برادری نے جاپان کے حالیہ اشتعال انگیر اقدامات کے خلاف ردعمل دیا ہے ۔ روس نے جاپان کی جانب سے تاریخ کو مسخ کرنے کی پالیسی پر تنقید کی، جبکہ جنوبی کوریا نے جاپان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں معطل کر دیں، اور شمالی کوریا نے جاپان کی مذمت کرتے ہوئے اسے “جنگ کو بھڑکانے والے ملک کا بدصورت چہرہ” قرار دیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے جاپان سے اپنے امن پسند آئین کی روح کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہاں تک کہ جاپان کے اندر بھی، سابق وزرائے اعظم شیگیرو ایشیبا، یوشی ہیکو نودا، اور یوکیو ہاتویاما جیسی ممتاز سیاسی شخصیات نے اپنی مخالفت کا اظہار کیا، اور ٹوکیو کے عوام بھی ملک کو خطرناک حد تک تصادم کی جانب دھکیلنے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔

تاریخ بہترین درسی کتاب ہے۔ اسی سال قبل جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ کی فتح نے جاپانی عسکریت پرستی کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ بین الاقوامی دستاویزات جیسے کہ قاہرہ اعلامیہ اور پوٹسڈیم اعلامیہ میں واضح طور پر جاپان کی جنگ کے بعد کی حیثیت اور اس کی غیر فوجی ذمہ داریوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ آج، جاپان کی دائیں بازو کی قوتیں تاریخ کی ترقی کے رجحان کے برعکس جانے کی کوشش کر رہی ہیں، جو کہ بنیادی طور پر بین الاقوامی نظام کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔

اس حوالے سے چین کا موقف مضبوط اور واضح ہے: ہم کبھی بھی عسکریت پرستی کو دوبارہ سر اٹھانے نہیں دیں گے، ہم کبھی بھی بیرونی قوتوں کو تائیوان کے امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے، اور ہم کبھی بھی تاریخی المیے کو دوبارہ رونما ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ چین نے جاپان سے سخت احتجاج اور شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور جاپان پر زور دیا ہے کہ وہ تاریخی جرائم پر گہری نظر ثانی کرے اور غلط راستے پر مزید آگے نہ بڑھے۔

امن کبھی قدرتی طور پر دیا گیا تحفہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ مسلسل جدوجہد کا ایک ایسا نتیجہ ہے جس کی مل کر حفاظت کرنا پڑتی ہے۔ جاپان کو اپنی تاریخ کا سامنا کرنا چاہیے، اپنی تاریخ پر غور و فکر کرنا چاہیے، اپنے ملک کی شعوری آوازوں اور بین الاقوامی برادری کی انصاف کی پکار کو سننا چاہیئے ، اپنی دائیں بازو کی مہم جوئی کی پالیسیوں کو ترک کرنا چاہیے، اور بات چیت اور مشاورت کے درست راستے پر واپس آنا چاہیے۔

عالمی برادری کو بھی انتہائی ہوشیاری برقرار رکھنی چاہیے اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی اقدام کی مزاحمت کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ صرف اسی طرح ہم تاریخ کے شہداء کو تسلی دے سکتے ہیں، ایشیاء پیسفک خطے کو جنگ کی گھٹاؤں سے دور رکھ سکتے ہیں اور حاصل شدہ امن اور ترقی کی حفاظت کر سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں