ٹو کیو (رپورٹنگ آن لائن) جاپانی سیاست دانوں نے وزیراعظم سانائے تاکائیچی کے غلط بیانات پر تنقید جاری رکھی اور جاپان چین تعلقات کے استحکام کی اہمیت پر زور دیا۔ جاپان کے سابق وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا نے ٹوکیو میں جاپان چین تعلقات کےحوالے سے بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا ، “کیا ہمارا ملک چین کے ساتھ تعلقات کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے.
” شیگیرو ایشیبا کا کہنا تھا کہ تمام جاپانی حکومتوں نے ہمیشہ چین کے موقف کو سمجھا اور اس کا احترام کیا کہ تائیوان چین کا حصہ ہے، “اور یہ موقف تبدیل نہیں ہو سکتا۔” اسی دن، جاپان کے ممتاز رکن پارلیمان اچیرو اوزاوا نے سوشل میڈیا پر مسلسل دس مختصر پیغامات میں سانائے تاکائیچی کے اپنے غلط بیانات کو واپس لینے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم سانائے کو اپنے قول و فعل میں محتاط رہنا چاہیے، خاص طور پر تائیوان کے معاملے پر۔جب تک وہ کانگریس کے سامنے اپنے بیانات واپس نہیں لیں گی، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
ادھر بین الاقوامی شخصیات کا ماننا ہے کہ سانائے تاکائیچی کے غلط بیانات تاریخ کو مسخ کرنے اور جاپانی عسکریت پسندی کو زندہ کرنے کی کوشش ہیں۔تھائی لینڈ کی نیشنل ریسرچ کونسل میں تھائی لینڈ-چین اسٹریٹجک ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر سورسیت تھاناٹانگ کا خیال ہے کہ سانائے تاکائیچی کے غلط ریمارکس جاپانی عسکریت پسندی کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش ہیں۔
دنیا کے تمام ممالک ون چائنا پالیسی کو تسلیم کرتے ہیں اور تائیوان چین کا حصہ ہے۔ چیک صحافی ہلینا کوچوا نے کہا کہ جاپانی وزیر اعظم کی جانب سے تاریخ کومسخ کرنے، عسکریت پسندی کو زندہ کرنے یہاں تک کہ جوہری ہتھیار متعارف کروانے کے بیانات عہد حاضر میں لوگوں کے لئے ناقابل تصور ہیں۔ چین میں ارجنٹائن کے سابق سفیر گیستاوا واکا نارواجا نے کہا کہ ایک چین کااصول ایک غیر متزلزل بنیاد ہے ، جس پر اقوام متحدہ ہمیشہ کاربند رہا ہے۔ کوئی بھی ملک جو اس بارے میں سوال اٹھاتا ہے وہ بین الاقوامی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے۔








