اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن)وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ ترقی پذیر ممالک کو کرونا کے معاشی مضمرات سے نکالنے ،2030ء کے دیرپا ترقی کے اہداف پر دوبارہ گامزن کرنے کیلئے معاشی وسائل کی فوری فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا،گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی ہمارے معاشروں کیلئے سنگین خطرہ بن چکی ہے، پاکستان دہشت گردی کے عفریت سے سب سے زیادہ متاثر ہوا جو اکثر اوقات سرحد پار معاونت کے باعث ہوئی،دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے جامع نیشنل ایکشن پلان پر عمل پیرا ہیں،حق آزادی اظہار رائے کا استعمال ذمہ داری کا متقاضی ہے ، اسلاموفوبیا کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ، خطے میں قیام امن کیلئے پرامن اور مستحکم افغانستان ناگزیر ہے، افغانستان میں قیام امن کی کاوشوں کو سبوتاژ کرنے کے درپے اسپائلرز پر نظر رکھنا ہو گی ،پاکستان، محفوظ ،خوشحال اور مستحکم ایشیا پیسفک کیلئے آسیان ریجنل فورمز کے اقدامات کی حمایت جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہے ۔آسیان علاقائی فورم کے اٹھائیسویں وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مجھے آسیان علاقائی فورم کے اٹھائیسویں وزارتی اجلاس میں شرکت کر کے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں رواں سال کیلئے آسیان کی متحرک سربراہی پر برونائی دارالسلام کو اور آسیان کی مستقل باڈیز کو موثر کارکردگی پر خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ آسیان ریجنل فورم کا یہ اجلاس ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم باہمی دلچسپی کے سیاسی و سیکورٹی امور پر مشاورت اور تعمیری مذاکرات کیلئے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے کیلئے تعاون کو فروغ دیں۔انہوں نے کہا کہ کرونا عالمی وبا کی وجہ سے دنیا صحت عامہ اور معیشت کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہے،اس عالمی وباء کا ماورائے جغرافیائی حدود ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ آسیان ریجنل فورم اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کی کثیر الجہتی روح کو بروئے کار لایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس وباء کے مسئلے کو سیاست کی نذر کرنے کی مخالفت کرتے آئے ہیں، ہمیں اپنے وسائل کو مجتمع کر کے ایسی ویکسین تیار کرنی چاہیے جو ایک ”گلوبل پبلک گڈ”کے طور پر سب کو دستیاب ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس وباء سے موثر انداز میں نمٹنے کیلئے سمارٹ لاک ڈائون کی حکمت عملی کو اختیار کیا جو انسانی جانوں کا تحفظ، معاش اور معیشت کے تحفظ جیسے تین اہم پہلوں پر مشتمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ احساس ایمرجنسی پروگرام کے تحت 200ارب سے زائد رقم معاشی طور پر کمزور 15 ملین خاندانوں میں تقسیم کی گئی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ویکسین لگانے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے دسمبر 2021تک 70ملین افراد کو ویکسین لگائی جائیگی ۔انہوں نے کہا کہ وبائی بحران سے نمٹنے اور دوبارہ بہتر تعمیر کے ہدف کے حصول کیلئے ہمیں ویکسین کی یکساں فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو کرونا کے معاشی مضمرات سے نکالنے اور 2030ء کے دیرپا ترقی کے اہداف پر دوبارہ گامزن کرنے کیلئے معاشی وسائل کی فوری فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی ہمارے معاشروں کیلئے سنگین خطرہ بن چکی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان،دہشت گردی کے عفریت سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جو اکثر اوقات سرحد پار معاونت کے باعث ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ ہماری مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں نے ہزاروں کی تعداد میں اپنی جانوں کی قربانی دی ۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان ایک جامع نیشنل ایکشن پلان پر عمل پیرا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کئے ہیں،ہم نے فیٹف کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کی تشفی کیلئے جامع ریگولیٹری میکانزم وضع کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گرد کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے وہ افراد کی جانب سے ہوں، گروہوں کی جانب سے ہوں یا ریاستوں کی جانب سے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی ملک کو یہ اجازت ہرگز نہیں دینی چاہیے کہ وہ سیاسی مقاصد کیلئے پوری قوم یا معاشروں پر دہشت گردی کے حوالے سے الزام تراشی کرے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں غیر قانونی طور پر قبضہ شدہ اور متنازعہ علاقوں کے مکینوں پر ریاستی دہشتگردی کی مذمت کرنی چاہیے اور ان کے ذمہ داران کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ،حق آزادی اظہار رائے کا استعمال ذمہ داری کا متقاضی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اسے کم و بیش دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری کیلئے استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اجتماعی طور پر دنیا بھر میں بالخصوص ہمارے اپنے خطے میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی اور فاشسٹ رحجانات کے احیا کی مذمت کرنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں کی خوشحالی، اور سماجی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ دیرینہ تنازعات کو پرامن طریقے حل کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازعہ علاقوں میں جغرافیائی تبدیلیوں کے اقدامات کی مذمت کرتے ہیں،یہ یکطرفہ اقدام، خطے میں تعاون اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنے کی ہماری کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس حوالے سے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کو ضروری سمجھتے ہیں ،خطے میں امن و استحکام کیلئے یہی واحد راستہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ خطے میں قیام امن کیلئے ایک پرامن اور مستحکم افغانستان ناگزیر ہے ،افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے ،پاکستان، افغان قیادت میں افغانوں کو قابلِ قبول جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے سیاسی حل کا حمایتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ان اسپائلرز پر نظر رکھنا ہو گی جو افغانستان میں قیام امن کی کاوشوں کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ بھی ضروری ہے کہ عالمی برادری ماضی کی غلطیوں کو نہ دہراتے ہوئے، کشیدگی کے خاتمے کے بعد افغانستان کی تعمیر نو اور تعمیر و ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرے ۔انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کو امن مذاکرات کا حصہ بنایا جانا ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ جنوب مشرقی ایشیا اور علاقائی تناظر میں پاکستان باہمی تعاون کے فروغ کیلئے آسیان کی مرکزیت کی اصولی حمایت جاری رکھے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ متعلقہ فریقین کیساتھ باہمی صلاح اور مشاورت کیساتھ جنوبی چین کے سمندرمیں امن و امان کو یقینی بنایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس حوالے سے چین اور آسیان کے اشتراک سے کوڈ آف کنڈکٹ کی تشکیل کی حمایت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ پاکستان ملائشیا کے ساتھ مل کر آسیان علاقائی فورم کے چوبیسویں دفاعی اداروں /یونیورسٹیوں کے سربراہان، اجلاس کی میزبانی کرے گا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نومبر 2019میں سنگاپور کے ساتھ مل کر 23ویں اجلاس کی میزبانی کا اعزاز حاصل کر چکا ہے۔ پاکستان، محفوظ ،خوشحال اور مستحکم ایشیا پیسیفک کیلئے آسیان ریجنل فورمز کے اقدامات کی حمایت جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہے ۔