اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سید علی گیلانی کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں ۔ ان کے انتقال پر پوری قوم غمزدہ ہے ۔
دکھ ہے کہ جس طرح ہندوستانی فورسز نے ان کے گھر کا گھیراو کیا وہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔ بھارت ان کے نمازجنازہ سے بھی خوفزدہ تھا ، دوہا امن معاہدہ افغانستان کے قائدین کے لئے ایک نئی امید لایا، بدقسمتی سے بین الافغان مذاکرات میں نہایت کم پیش رفت ہوئی،غیریقینی کی صورتحال میں مزید پیچیدگی 31 اگست 2021 کو افواج کے انخلاء کے اچانک امریکی اعلان سے پیدا ہوئی۔ چھٹے تھنک ٹینک فورم سے خطاب کرتے ہوے انہوں نے کہا سب سے پہلے میں سید علی گیلانی کے انتقال پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں ۔ سید علی گیلانی کے انتقال پر پوری قوم غمزدہ ہے۔ مجھے دکھ ہے کہ جس طرح ہندوستانی فورسز نے کل رات ان کے گھر کا گھیراو¿ کیا وہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔ بھارت ان کے نمازجنازہ سے بھی خوفزدہ ہے ۔
میں اس صورتحال سے شدید اضطراب میں ہوں۔ ہر کشمیری اور ہر پاکستانی کے یہی جذبات ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کی خوشبو ان کے راہنما اصولوں کے باعث ہمیشہ تروتازہ رہے گی اور دنیا بھر کے کشمیریوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو گی۔ انہوں نے کہا اہم موضوع پر آج کا اجلاس منعقد کرنے پر میں منتظمین کو مبارک پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا ہم اپنے ہمسائے میں اہم واقعات رونما ہوتے دیکھ رہیں جن کے خطے اور اجتماعی برادری کے لئے بحیثیت مجموعی دور رس مضمرات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالات ایک نہایت باریک بینی اور احتیاط سے مرتب کردہ پالیسی کے متقاضی ہیں تاکہ مسائل سے بچا جاسکے اور وہ مقصد حاصل ہوسکے جس کے لئے ہم گزشتہ کئی برس سے محوجستجو ہیں یعنی ایک پرامن اور خوش حال افغانستان کا قیام۔
انہوں نے کہا اس سے قبل کہ میں افغانستان پر ہماری پالیسی کے نمایاں نکات کواجاگر کروں، حالیہ صورتحال پر چندگزارشات سے آپ کو ہماری پالیسی سے متعلق بنیادی تصور واضح ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا دو دہائیوں میں عالمی اتحاد نے فوجی انداز فکر اپناتے ہوئے افغانستان میں امن کے حصول کی کوشش کی جو میری دانست میں زمینی حقائق پر مبنی نہیں تھا۔ فوجی حل پر اصرار کے نتیجے میں سیاسی عمل کی راہ میں رکاوٹیں حائل رہیں۔ انہوں نے کہا دوہا امن معاہدہ افغانستان کے قائدین کے لئے ایک نئی امید لایا۔ بدقسمتی سے بین الافغان مذاکرات میں نہایت کم پیش رفت ہوئی۔ انہوں نے کہا غیریقینی کی صورتحال میں مزید پیچیدگی 31 اگست 2021 کو افواج کے انخلائ کے اچانک امریکی اعلان سے پیدا ہوئی۔
افغان قیادت میں افغانوں کو قبول مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیہ کی غیرموجودگی میں بین الاقوامی افواج کے انخلاے افغان قیادت کے لئے اپنی نوعیت کے نئے مسائل و مشکلات اور امکانات پیدا کردئیے۔ انہوں نے کہا افغان سکیورٹی فورسز کی طرف سے مزاحمت کے فقدان اور طالبان کے کابل کے تیزی سے ٹیک اوور نے عالمی برادری کو حیران کردیا۔ بظاہر خانہ جنگی کا امکان ٹل گیا ہے۔ انہوں نے کہا ٹیک اوور کے بعد سے طالبان نے عام معافی، خواتین کے حقوق کے تحفظ، اظہاررائے کی آزادی، روزگار اور تعلیم کی فراہمی اور اجتماعیت کے حامل سیاسی نظام کے لئے کشادگی کے متعدد اعلانات کئے ہیں۔ انہوں نے کہا طالبان مستقبل کے سیاسی نظام سے متعلق افغان رہنماوں سے بات چیت کررہے ہیں۔تاہم آج کے دن تک صورتحال نازک ہے۔
انہوں نے کہا کابل ہوائی اڈے کے قریب ’داعش‘ کے دو حملوں میں 170 سے زائد جانوں کا بدقسمتی سے ضیاع ہوا جو نازک صورتحال کی افسوسناک یاددہانی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ صورتحال زیادہ متقاضی ہے کہ افغان قائدین دانائی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے کہا یہ صورتحال اس امر کی بھی متقاضی ہے کہ عالمی برادری ایک اجتماعی ذمہ داری کے طورپر اپنے رابطے جاری رکھتے ہوئے امن، استحکام اور خوشحالی کی راہ پر افغانستان کی مدد کرے۔ انہوں نے کہا ناکامی کوئی آپشن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان واحد ملک تھا جس نے ہمیشہ یہی کہا کہ افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں۔ مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل پر اپنے پختہ یقین کے ساتھ پاکستان نے امریکہ اور طالبان میں براہ بات چیت کی حمایت کی جس سے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔
انہوں نے کہا ہم آواز بلند کرتے رہے کہ بین الاقوامی افواج میں انخلائ بین الافغان مذاکرات میں پیش رفت کی مناسبت اور مطابقت سے ہونا چاہئے۔ہم نے عبوری دورانیہ کو خوش اسلوبی سے یقینی بنانے کی خاطر ذمہ دارانہ اور منظم انداز میں افواج کے انخلا کی بھی حمایت کی۔ انہوں نے کہا جانی نقصانات اور معیشت دونوں لحاظ سے افغانستان کے بعد سب سے زیادہ ہم متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا افغانستان میں امن واستحکام میں پاکستان سے زیادہ کسی اور ملک کا مفاد نہیں۔
انہوں نے کہا افغانستان میں تنازعہ اور عدم استحکام کا جاری رہنا یقینی طورپر ہمارے مفاد میں نہیں۔ انہوں ں نے کہا افغانستان کی مجموعی تعمیر میں افغان معاشرے کے تمام طبقات کو ہم نہایت اہم سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا ہر افغان خواہ وہ تاجک برادری سے ہو، ازبک یا ترکمن یا پشتون ہو، یہ سب مجموعی طور پر اس خوبصورت گلدستے کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا ہم نے تمام نسلی برادریوں کے ساتھ رابطہ کیا ہے تاکہ متحدہ اور پرامن افغانستان کے لئے اپنی حمایت کا اعادہ کرسکیں۔
انہوں نے کہا موجودہ حالات میں ہم افغانستان میں اجتماعیت کے حامل نظام کے لئے حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ یہی آگے بڑھنے کا واحد بہتر راستہ ہے۔ انہوں نے کہا ہم طالبان کے اعلانات کو مثبت وحوصلہ افزا سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان قیادت کو افغان عوام کے مطالبات کو پورا کرنے، اختلافات کو مفاہمت میں ڈھالنے اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیہ کے حصول کے دیرینہ ہدف کی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا اجتماعیت کا حامل نظام طالبان کے لئے اہم ہے تاکہ وہ عوام کا اعتماد اور عالمی برادری کی طرف سے قبولیت حاصل کرسکیں۔ اس سے علاقائی اور عالمی سطح پر تعاون کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔ اس سے خطے کے لئے ہمارے مشترکہ اہداف کو تعبیر دینے میں مدد ملے گی جس میں دہشت گردی کے عفریت سے نجات اور رابطوں میں جوڑنے کے منصوبوں کے جال کے ذریعے عالمی برادری سے مضبوط رابطوں کی استواری شامل ہے۔ انہوں نے کہا ’جیو اکنامکس‘ پر ہماری ازسرنو مرکوز کردہ توجہ کے پیش نظر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ’خطے‘ کے جڑنے کے ثمرات اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے جب تک افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا اس مقصد کے حصول کے لئے عالمی برادری کے لئے نہایت اہم ہے کہ افغانستان سے روابط استوار رکھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت سب سے بڑا موقع افغانستان میں پائیدار امن واستحکام کے لئے یکجا ہونے کی صورت موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ مستقل رابطوں سے مستحکم ٹرانزیشن یقینی ہوگا اور 1990 کو دوہرائے جانے سے بچا جاسکے گا۔ اس نازک مرحلے پر افغان عوام کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔ انہوں نے کہا پاکستان ’سہولت کار‘ کا اپنا کردار جاری رکھے گا تاہم ہمارے کردار کو ضامن کے طورپر غلط انداز میں محمول نہ کیاجائے۔ انہوں نے کہا میں نے تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کے دورے کئے جہاں میں نے ان ممالک کی قیادت سے، ہماری مشترکہ تشویش اور علاقائی انداز فکر اپنانے کی ضرورت پر تفصیلی بات کی۔ میری گفتگو کا محور و مرکز تین نکات پر رہا۔
افغان تنازعے کے سیاسی حل میں سہولت اور اجتماعیت کے حامل سیاسی حل کے حصول میں مدد، سلامتی، انسداد دہشت گردی اور سرحدی انتظام کے شعبوں میں ہمسایہ ممالک میں تعاون کو تیز کرنا تاکہ سمگلنگ، ہیومن ٹریفکنگ اور مہاجرین کے بہاو جیسے مسائل سے نمٹا جاسکے۔ افغانستان اور وسط ایشیائ کے ذریعے علاقائی تجارت، ٹرانزٹ، انفراسٹرکچر، توانائی راہداری، کاروباری روابط اور عوامی رابطوں کو فروغ دیاجائے، جوہماری “جیواکنامکس” پالیسی کا مظہر ہے۔ انہوں نے کہا سب کے خیالات سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ افغانستان کے ہمسائے ہماری تشویش میں مکمل شریک ہیں۔ انہوں نے کہا ہم آنے والے دنوں میں اپنے علاقائی انداز فکر کے لئے کاوشوں کو مزید تیز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے تحت اعلی سطح کے رابطوں کا سلسلہ آگے بڑھائیں گے۔
کہ ہم نے سفارتکاروں، عملے، بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں، عالمی این جی اوز اور ذرائع ابلاغ کے افراد کے انخلا کے لئے عالمی کوششوں میں بھرپور سہولت فراہم کی ہے۔ ہم نے بین الوزارتی ایک خصوصی سیل قائم کیا تاکہ ویزا اور آمد سے متعلق امور میں سہولت پیدا ہو۔ کابل میں پاکستانی سفارت خارجہ تیز ترین بنیادوں پر ویزے جاری کررہا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کے انٹرنیشنل ہوائی اڈوں پر آمد پر ویزے جاری کئے جارہے ہیں۔