بُوبُو 55

بڑی بلی” کدھر ہے؟

بیجنگ (رپورٹنگ آن لائن)”آج بُوبُو کس پارک میں نظر آئے گا؟”حال ہی میں، چین کے سماجی میڈیا پلیٹ فارمز پر پرندوں کے شوقین افراد کا ایک مقبول سوال گردش کر رہا ہے “آج ‘بڑی بلی’ کہاں ہے؟ یہ دراصل بلی نہیں بلکہ ایک عقابی الوّ ہے جس کو “بڑی بلی” کہہ کر پکارا جا رہا ہے۔ اس سال سردیوں کے آغاز سے ہی لوگوں نے اسے بیجنگ کے پارکوں جیسے ٹیمپل آف ہیون، بوٹینیکل گارڈن، یویوان تھان، اور ممنوعہ شہر میں کئی بار دیکھا ہے۔

اسی وجہ سے، زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی آنکھوں سے اس پیارے پرندے کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے سوشل میڈیا پر روزانہ ایک سوال اٹھتا ہے: “آج،’ بڑی بلی’ کہاں ہے؟”بُوبُو بو بو زیادہ تر پہاڑوں اور جنگلات میں رہتے ہیں، اور شہروں یا پارکوں میں دیکھنا مشکل ہوگا ۔ تاہم، بیجنگ کے میگا سٹی میں، عقابی الوّ اکثر نظر آتے ہیں ۔ اس کی کیا آخر وجہ کیا ہے ؟

اس کا جواب قدرتی طور پر ماحولیاتی نظام کی مسلسل بہتری میں ملتا ہے۔ ایک اعلیٰ شکاری ہونے کے ناطے جو اپنے مسکن کے بارے میں بہت زیادہ چنچل ہے، بُوبُو بوبو کی بار بار آمد اتفاقاً نہیں ہے۔ یہ شہر میں ہونے والی ایک تبدیلی کی علامت ہے ۔ جنگلات میں مسلسل اضافے سے لیکر چھوٹے بڑے پارکوں کی مسلسل تعمیرات تک ، اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی کمیونٹی تک، شہر میں گرین لینڈز کو سجاوٹی مناظر سے ایک مکمل ماحولیاتی نظام میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔حیاتیاتی انواع میں اضافے کے ساتھ پرندوں کے لیے غذا سے بھرپور، محفوظ اور پرکشش مسکن وجود میں آرہے ہیں۔

جو چیز بُوبُو بوبو کو یہاں کھینچ لاتی ہے وہ ہی اسکی تمام پہلوؤں سے حفاظت۔ رواں سال بہار میں ایک بُوبُو بوبو بیجنگ کی ہوہائی جھیل میں پانی میں گر گیا، اور آس پاس کے لوگوں نے مل کر اسے نکالا۔ دو ہفتے کے علاج کے بعد، اسے دوبارہ قدرت کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔بتایا گیا ہے کہ بیجنگ ریپٹر ریسکیو سینٹر نے 20 سال سے زیادہ عرصے میں 6,000 سے زائد شکاری پرندے بچائے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ، پرندوں کو دیکھتے وقت ان سے دور رہنا تاکہ انہیں کسی قسم کا خلل نہ پڑے اور ان کے مسکن کی حفاظت کرنا بھی ایک عمومی تصور بن چکا ہے۔ عوام کی فعال شرکت سے لے کر پیشہ ورانہ مدد تک، ایک حفاظتی ماحول تشکیل دیا گیا ہے جس میں تمام شہری شریک ہیں اور بوبو بوبوسمیت دیگر پرندوں کے لیے بھی ایک دوستانہ حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی ہے۔

بُوبُو بوبو کا شہرمیں نظرآنا شہر کے عمیق انتظامات کا عکاس بھی ہے۔ بُوبُو بوبو کو “رات کا بادشاہ” کہا جاتا ہے جو دن میں آرام کرتا ہے اور رات کو شکار کرتا ہے۔ تاہم، شہر کی روشنیوں سے رات کی سرگرمیوں میں خلل پڑ سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، روشنی کے ماحول پر اثرات کو کم کرنے کے لیےکئی اقدامات کیے گئے ہیں، جیسے ہجرت کے راستوں کے قریب تاریک آسمان کی حد بندی،دن رات جیسے مختلف اوقات کے مطابق پارک کی روشنیوں کو تبدیل کرنا، اور رہائشی علاقوں میں رات کو مناسب روشنی کا استعمال۔ یہ اقدامات رہائشیوں کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں اور رات کے جانوروں کے ماحول کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔

پورے ملک میں، انسانی زندگی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان بہترین توازن قائم کرنے کا یہ طرز حکمرانی، چین کی ماحولیاتی تہذیب کے تصور کی عملی حکمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ” سبز پہاڑ اور شفاف پانی انمول اثاثے ہیں” کے تصور سے لے کر حیاتیاتی تنوع کے تحفظ تک، “انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگ بقاء” چینی طرز کی جدیدیت کی ایک نمایاں خصوصیت بن چکا ہے:

یہ نہ صرف ماحولیاتی بحالی کے ذریعے جنگلی جانوروں اور پودوں کے لیے بہترین مسکن برقرار رکھتا ہے بلکہ ادارہ جاتی اختراعات کے ذریعے انسانی ترقی کی ضروریات کو بھی یقینی بناتا ہے۔ یہ تحفظ کےلیے نہ صرف سائنسی اور تکنیکی طاقت پر انحصار کرتا ہے ، بلکہ عوامی شعور پر بھی توجہ دیتا ہے۔ قلیل مدتی حکمرانی کو طویل مدتی ترقی، مقامی بہتری اور مجموعی ہم آہنگی کے ساتھ جوڑنے کے خیال نے ماحولیاتی تحفظ کے تصور کو لوگوں کے لیے قابل محسوس نتائج میں تبدیل کر دیا ہے۔

ماضی میں، لوگ جب پارک میں جاتے تھے،وہ صرف پیدل چلتے اور جسمانی ورزش کرتے تھے ۔ لیکن اب، ماحولیاتی تحفظ کا احساس رکھتے ہوئے لوگ پارک میں جاتے ہیں جہاں انہیں زیادہ سے زیادہ جنگلی جانور بھی پڑوسیوں کی طرح ملنے لگے ہیں “وہ ‘بڑی بلی’ کدھر ہے؟” مختلف مخلوقات کے بارے میں زیادہ تجسس کے ساتھ، لوگ شہر کے پارکوں میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی تہذیب میں الوّ حکمت کی نمائندگی کرتے ہیں، مینڈرین ڈک محبت کی علامت ہیں، اور میگپائی کی آمد خوش قسمتی سمجھی جاتی ہے ،

یہ سب پارکوں میں نظر آتے ہیں،جو صرف قدرتی ماحول کی بہتری نہیں بلکہ ثقافتی اعتبار سے بھی عوام کو روحانیت سے مالا مال کرتے ہیں ۔جب ایک بڑے شہر میں شکاری پرندے بسیرا کرتے ہیں، تو اس سے اس شہر کی مضبوط ترقی کی حکمت عملی کا پتہ چلتا ہے: انسان قدرت کے ساتھ مل کر آگے بڑھ سکتا ہے اور قدرت کے ساتھ مل کر چلنا بھی ضروری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں