تجارتی میدان

بالادستی کی ذہنیت کو ترک کرتے ہوئے کثیر قطبی دنیا کے روشن مستقبل کی تعمیر کریں، چینی میڈیا

بیجنگ (رپورٹنگ آن لائن) چین اور امریکہ اقتصادی اور تجارتی میدان میں کش مکش ایک بار پھر بڑھ گئی ہے۔ چین کی جانب سے ’’ریئر ارتھ اور متعلقہ اشیاء کی برآمدات پر کنٹرول‘‘ کو بہانہ بنا کر، امریکہ نے چین پر 100 فیصد محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی ہے اور تمام اہم سافٹ ویئر کی برآمدات پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اس عمل نے ایک بار پھر بین الاقوامی مقابلے میں امریکہ کی دھمکیوں اور محصولاتی غنڈہ گردی کو بے نقاب کر دیا ہے۔

طویل عرصے سے، امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قانون کو پاؤں تلے روندتا آیا ہے، “لانگ آرم دائرہ اختیار” ، اقتصادی پابندیوں اور دیگر غنڈہ گردی کے طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے ممالک کی ترقی کو دبانے اور محدود کرنے کا کام کرتا رہا ہے۔ اس بار پھر امریکہ کی طرف سے زیادہ محصولات عائد کرنے کی دھمکی، واضح طور پر چین کے ساتھ برتاؤ کا صحیح طریقہ نہیں ہے، بلکہ اس کی بالادستی کی ذہنیت کا تسلسل ہے۔ تاہم، امریکہ شائد یہ بھول گیا ہے کہ بالادستی کا دور گزر چکا ہے اور یک قطبی دنیا کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے عروج کے ساتھ، دنیا کا منظر نامہ تیزی سے کثیر قطبی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، ممالک کی طاقت کا توازن بتدریج تبدیل ہو رہا ہے، اور کوئی بھی ملک اکیلے پوری دنیا پر حکمرانی نہیں کر سکتا۔

کثیر قطبی دنیا میں، مساوی تعاون اور باہمی فائدہ ہی صحیح راستہ ہے۔ چین کا طریقہ کار امریکہ کے لیے ایک واضح سبق ہے، اور دنیا کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے۔ چین کی وزارت تجارت اور کسٹمز کے جنرل ایڈمنسٹریشن نے بیرونی ممالک کی ریئر ارتھ سے متعلقہ اشیاء جن میں چینی اجزاء شامل ہیں اور ریئر ارتھ سے متعلقہ ٹیکنالوجیز کی برآمدات پر کنٹرول نافذ کیا ہے۔

یہ چینی حکومت کے قوانین و ضوابط کے مطابق، اپنے برآمداتی کنٹرول سسٹم کو بہتر بنانے کا جائز عمل ہے۔ ایک ذمہ دار بڑے ملک کے طور پر، چین نے متعلقہ اشیاء کی برآمدات پر قانونی کنٹرول نافذ کیا ہے، جس کا مقصد عالمی امن اور خطے کی استحکام کو بہتر طور پر برقرار رکھنا، اور عدم پھیلاؤ جیسے بین الاقوامی فرائض کو پورا کرنا ہے، اور ساتھ ہی جنرل لائسنس، لائسنس کی چھوٹ جیسے متعدد سہولیاتی اقدامات پر فعال طور پر غور کر رہا ہے، تاکہ قانونی تجارت کو مؤثر طریقے سے فروغ دیا جا سکے۔ یہ امریکہ کے برآمداتی کنٹرول کے غلط استعمال اور قومی سلامتی کے تصور کو من مانی توسیع کرنے کے طریقہ کار کے بالکل برعکس ہے۔

چین کے اقدامات نہ صرف دنیا کے لیے قواعد و ضوابط طے کرتے ہیں، بلکہ ترقی پذیر ممالک کو مزید عزت نفس اور اعتماد بھی بخشتے ہیں۔ عالمی حکمرانی میں، چین نے مشاورت، مشترکہ تعمیر اور اشتراک کی عالمی حکمرانی کے نقطہ نظر پر اصرار کیا ہے، اور مساوی و منظم کثیر قطبی عالمی نظام اور جامع و اشتراکی معاشی عالمگیریت کی وکالت کی ہے۔ چین نے 160 سے زائد ممالک کو ترقیاتی امداد فراہم کی ہے، 150 سے زائد ممالک کے ساتھ ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ کی مشترکہ تعمیر میں ہاتھ ملایا ہے، عالمی ترقی اور جنوب-جنوب تعاون فنڈ قائم کیا ہے.

جس سے ترقی پذیر ممالک کو حقیقی مدد اور تعاون ملا ہے، اور ترقی پذیر ممالک کے بولنے کے حق اور نمائندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس، امریکہ کے بالادستی کے رویے نے نہ صرف دوسرے ممالک کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے، بلکہ اسے خود بھی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چین پر 100 فیصد محصولات عائد کرنے کی دھمکی کے بعد، امریکی اسٹاک مارکیٹ میں ایک دن میں 2 ٹریلین ڈالر کی کمی آئی، جو اس سال اپریل کے بعد سے بدترین کارکردگی ہے، اور امریکہ کے اندر حکومت سے تجارتی جنگ نہ کرنے اور مارکیٹ کو مستحکم کرنے کی آوازیں غالب ہیں، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تجارتی جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا، صرف مساوی مشاورت اور باہمی تعاون کے ذریعے ہی تمام ممالک کی مشترکہ ترقی اور خوشحالی حاصل کی جا سکتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ، امریکہ کو صورتحال کو پہچاننا چاہیے، بالادستی کی ذہنیت کو ترک کرنا چاہیے، کثیر قطبی دنیا کی ترقی کے رجحان کے مطابق ڈھلنا چاہیے، اور دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر ایک زیادہ منصفانہ، معقول اور جامع بین الاقوامی نظم کی مشترکہ تعمیر کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اور چین بھی امن ترقی کے راستے پر مستقل مزاجی سے چلتے ہوئے، اپنی ترقی کے ذریعے دنیا کے لیے مزید مواقع اور مثبت توانائی لاتا رہے گا، اور تمام ممالک کے ساتھ مل کر کثیر قطبی دنیا کے روشن مستقبل کی تعمیر کرے گا۔