شہباز اکمل جندران۔۔۔
ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں ADR کے نام سے ایک ایسا عمل جاری ہے جس کو کسی قانون، ضابطے، پالیسی یا نوٹیفکیشن کی سپورٹ حاصل نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق 11 جنوری 2022 کو پنجاب حکومت نے
The Provincial Motor Vehicles Rules 1969
کے رول 47 میں ترمیم کرتے ہوئے بائیومیٹرک تصدیق کو گاڑی کی تبدیلی ملکیت کے لیئے لازمی قرار دیدیا۔ تاہم اس نظام کے نفاذ سے بعض افراد کو گاڑیوں کی ٹرانسفر میں دشواری پیش آنے لگی۔
اور بعض افراد خصوصا بزرگ شہریوں کے نشان انگوٹھا کی تصدیق ہی نہیں ہوتی تھی، بعض بیرون ملک مقیم شہریوں کو متعلقہ ایمبیسی کے ذریعے پاور آف اٹارنی بھجوانے کے باوجود بائیومیٹرک تصدیق کا ایشو رہتا تھا، جبکہ بعض وفات کنندگان کے وارثان بھی مشکلات کا شکار ہونے لگے۔
ایسے میں سب کی نظریں ڈی جی و سیکرٹری آفس کی طرف اٹھنے لگیں۔تاہم قدم اٹھایا اس وقت کے ڈائیریکٹر موٹرز لاہور قمرالحسن سجاد نے اور متذکرہ بالا نوعیت کے مسائل کے حل کے لئے سسٹم میں کسی نوٹیفکیشن، اجازت، رولز میں ترمیم یا “لکھت پڑھت” کے بغیر ہی اصل فروخت کنندگان کی جگہ Representative کا نشان انگوٹھا قابل قبول بنانے کی کمانڈ شامل کر ڈالی۔اور اس عمل میں اس وقت کے کمپیوٹر پروگرامر محمد یونس نے ڈائریکٹر موٹرز کی معاونت کی۔
اسی کے ساتھ قمر الحسن سجاد نے لاہور کے پانچ دفاتر میں محض دو انسپکٹروں شیخ محمد رمضان اور نذیر بھٹی کو ADRکی اتھارٹی دی۔ان دونوں کے سوا کوئی بھی انسپکٹر ADRکی اتھارٹی نہیں رکھتا تھا۔
البتہ بعدازاں جہانگیر وٹو، اظہر بشیر، غلام محی الدین، ماسٹر محمد فاروق، رائے زاہد اور انسپکٹر ریاض کو بھی یہ اتھارٹی دیدی گئی ۔
تاہم وثوق یہ بتایا گیا ہے کہ اے ڈی آر کی اتھارٹی کو بہت زیادہ MISUSE کیا گیا ہے اور ایسے گاڑی مالکان جن کا فروخت کنندگان سے لین دین وغیرہ کا جھگڑا چل رہا تھا، یا فروخت کنندہ شہر سے دور تھا یا کسی دیگر جنوئین وجہ اور خونی رشتوں کے بغیر ایجنٹوں کے ذریعے گاڑیوں کو اونرشپ تبدیل کی جانے لگی۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ لاہور میں ADR کے ذریعے گاڑیوں کی ٹرانسفر میں 20 سے 50 ہزار روپے گاڑی کے ویرینٹ اور مالیت کے تناسب سے اضافی رشوت لی جاتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق ڈائیریکٹر ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ لاہور ریجن سی قمرالحسن سجاد نے قانون اور اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے از خود ADR کی اتھارٹی سسٹم میں متعارف کروائی۔ اور یہ طریقہ کار پنجاب بھر میںAdoptکیا جاچکا ہے۔ اور اس حد تک بدنام ہوچکی ہے کہ اسے فراڈ اور جعلسازی کا دوسرا نام دیا جانے لگا ہے۔
البتہ صورتحال سامنے آنے پر ڈائیریکٹر جنرل ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب ڈاکٹر آصف طفیل نے ایک کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو لاہور میں اے ڈی آر کے ذریعے تبدیل ہونے والی اونرشپس کے متعلق انکوائری کررہی یے۔