اسلام آباد ہائی کورٹ

ایمان مزاری کیخلاف توہین عدالت کی درخواست قابلِ سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹس کے ججز سے منسوب بیان پر ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے خلاف توہین عدالت کارروائی کی درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد درخواست کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ایمان مزاری کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی، جہاں شہری حافظ احتشام احمد ذاتی حیثیت میں بطور درخواست گزار پیش ہوئے۔

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ فریق نے ججز کے حوالے سے ایک تاثر دیا ہے کہ ججز میں تقسیم ہے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کونسے ججز کی بات کر رہے ہیں؟ جس پر درخواست گزار نے کہا کہ سر ان 5 ججز میں آپ بھی شامل ہیں۔

اس دوران جسٹس محسن اختر کیانی درخواست گزار احتشام احمد پر برہم ہوگئے اور کہا کہ یہیں پر رک جائیں آگے ایک لفظ بھی نہ بولیے گا، ججز کو بتانا چاہیے کہ ان کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے، کوئی اور آ کر بتائے گا کہ ججز کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے تو تاثر کچھ اور جائے گا۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ کسی کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، اس عدالت میں کوئی تقسیم نہیں ہے، صرف اپنے کیس کی حد تک رہیں ہم اس عدالت میں تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔درخواست گزار نے ایمان مزاری کی پریس کلب کے باہر کی گئی تقریر پڑھی۔

جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ جو کچھ آپ پڑھ رہے ہیں اس میں توہین عدالت کیسے لگتی ہے؟ آپ اخبار پڑھتے ہیں، وی لاگ سنتے ہیں سب کو آزادی اظہارِ رائے ہے، درخواست گزار نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے ججز کیخلاف تاثر دیا گیا ہے کہ ان پر پریشر ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے کہیں پر کوئی شکایت کی؟ جس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ راولپنڈی کے ٹرائل کورٹ کے بارے میں ایمان مزاری نے بات کی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وہ کمزور ججز کی نشان دہی کر رہی ہیں اس میں کیا برا ہے، اچھے جج بھی ہوتے ہیں اور نالائق جج بھی ہوتے ہیں، یہ توہین عدالت کا کیس کیسے ہے؟ جس پر درخواست گزار نے کہا کہ ضلعی عدلیہ کے ججز سے متعلق توہین آمیز گفتگو کی گئی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ کے کیس میں تو کوئی جج شکایت نہیں کر رہا، کسی جج نے کوئی شکایت کی ہے؟ ججز بار کونسلز میں جا کر تقریر کرتے ہیں، پہلے دیکھیں گے درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں۔عدالت نے درخواست گزار کے دلائل سننے کے بعد درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔