لاہور( رپورٹنگ آن لائن)پنجاب حکومت نے ایوان اقبال میں منعقد ہ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں آئندہ مالی سال2022-23ء کیلئے 3,226ارب روپے حجم کا ٹیکس فری بجٹ پیش کر دیا ،آئندہ مالی سال میں کل آمدن کا تخمینہ 2,521ارب 29کروڑ روپے لگا یا گیاہے جس میں وفاق کے قابل تقسیم محاصل سے پنجاب کیلئے 2,020ارب 74کروڑ روپے آمدن کا تخمینہ لگایاگیا ہے، صوبائی محصولات کی مد میں رواں مالی سال سے 24فیصد اضافے کے ساتھ 500ارب53کروڑ روپے تخمینہ لگایا گیا ہے ،
موجود ہ حکومت اپنے پچھلے دور کی طرح اس دور میں بھی ٹیکس وصولیوں میں نچلے طبقے پر بوجھ میں کمی اور صاحب حیثیت طبقات پر ٹیکس نیٹ کے پھیلا ئوکی عوام دوست پالیسی پر کاربند رہنے کا فیصلہ کیا ہے ،آئندہ مالی سال میں پنجاب حکومت کی جانب سے سیلز ٹیکس آن سروسز کی مد میں کوئی نیاٹیکس نہیں لگایا جا رہا، چھوٹے کاروباروں کی سہولت کیلئے سیلز ٹیکس آن سروسز میں ٹیکس ریلیف کے ساتھ ساتھ کسی سروس پرٹیکس کی شرح میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا جارہا تاہم صوبے کے ذاتی محصولات میں اضافے کیلئے شہری علاقوں میں اسٹیمپ ڈیوٹی کی شرح کو 1فیصد سے بڑھا کر 2فیصد کرنے کی تجویز دی جارہی ہے،حکومت نے مراعات یافتہ متمول طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے اوراس ضمن میں پنجاب فنانس ایکٹ2014کے تحت پر تعیش گھروں پر عائد کردہ لگڑری ہاس ٹیکس شیڈول میں بلحاظ رقبہ نئے ریٹ متعارف کروائے جارہے ہیں جن کا اطلاق یکم جولائی 2022سے ہوگا ،عوام کیلئے 200ارب روپے کے رعایتی پیکج کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے جس کے تحت 142ارب روپے سے اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں کمی ، رعایتی نرخوں پر سفری سہولیات کی فراہمی اور کاشتکاروں کو رعایتیں دی جائیں گی،آئندہ مالی سال میں ترقیاتی بجٹ کیلئے22فیصد اضافے سے685ارب مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ اورپنشن میں 5فیصد اضافے کا فیصلہ کیاگیا ہے ،
بجٹ میں مہنگائی اورآمدن کی شرح میں بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کیلئے خصوصی الائونس تجویز کیاگیا ہے جس کے تحت گریڈ1سے 19تک کے ایسے ملازمین جو اپنے الائونسز کی انتہائی حدسے کم الائونسز وصول کررہے ہیں انہیں اضافی 15فیصد اسپیشل الائونس دیا جائے گا،حکومت کی جانب سے دیہاڑی داری طبقہ اور مزدوروں کی کم ازکم اجرت 20ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 25ہزا ر روپے ماہانہ مقرر کردی گئی،تعلیم کے شعبہ کیلئے 10فیصد اضافے سے مجموعی طور پر 485ارب26کروڑ ،صحت کے شعبے کیلئے 27فیصد اضافے سے مجموعی طور پر 470ارب ،مقامی حکومتوں کیلئے 528ارب جبکہ زراعت کے شعبہ کیلئے مجموعی طور پر 53ارب 19کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے،آئندہ مالی سال میں435ارب 87کروڑ روپے تنخواہوں ,312ارب روپے پنشن اور528ارب روپے مقامی حکومتوں کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا آئندہ مالی سال کا بجٹ انچارج وزیر برائے خزانہ سردار اویس لغاری نے ایوان اقبال میں پیش کیا ۔اجلاس کی صدارت ڈپٹی سپیکر سردار دوست مزاری نے کی ۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز بھی ایوان میں موجود رہے ۔ اویس لغاری نے کہا کہ میں شکر گزار ہوں اس رب کائنات کا جو جسے چاہتاہے عہدہ اورمنصب عطا کرتا ہے اورجسے چاہتا ہے کہ ان سے محروم کردیتا ہے ۔ مقام شکر ہے کہ اس ذات بار ی تعالیٰ نے چور دروازے سے برسر اقتدار آنے والے شعبدہ بازوں کے عزائم کو ناکام بنا کر مسلم لیگ (ن) اس کے اتحادیوں اور پاکستان کے عوام کو سر خرو کیا ۔ پنجاب کی سر زمین اس بات کی گواہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پنجاب کے عوام نے خادم پنجاب محمد شہبازشریف سے زیادہ مدبر ، متحرک ،محنتی اوردیانتدار لیڈر نہیں دیکھا ۔ مجھے فخر ہے کہ آج ہم عزم نو کے سا تھ اسی خادم اعلیٰ کے اقدامات اور پالیسیوں کے سلسلے کو وزیراعلیٰ پنجاب محمد حمزہ شہباز کی قابل اور پر عزم قیادت میں بحال کرنے جارہے ہیں ۔
انہوںنے کہا کہ سابق حکومت کے زیر انتظام وطن عزیز خصوصاً پنجاب کی تاریخ کے گزشتہ ساڑھے تین برس ڈویلپمنٹ سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ابتری کے سال تھے ۔ دنیا گواہ ہے کہ یہ وہ دن تھے جب اس صوبے میں گورننس نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی تھی ۔ اقرباپروری اورقبیلہ نوازی عروج پر تھی اور شفافیت کے نام پر آنے والی برسر اقتدار سیاسی جماعت کے نامزد حکمران کرپشن کے ریکارڈ رقم کررہے تھے ، میں ان سیاہ دنوں اور سیاہ راتوں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ شاعر نے کہا تھا کہ ”شب گزر جائے تو ظلمت کی شکایت بے سود۔۔۔درد تم جائے تو اظہار اذیت کیسا”۔انہوںنے کہا کہ اعدادوشمار اس امر کے شاہد ہیں کہ 2019سے 2022کے وسط تک نہ کوئی قابل ذکر ترقیاتی منصوبہ مکمل کیاگیا اورنہ ہی عوامی فلاح وبہبود کے کوئی اقدامات منظر پر آئے ۔
مقام افسوس ہے کہ ان سفاک حکمرانوں نے پاکستان اور اس کے عوام کے ساڑھے تین قیمتی برس اپنے مخالفین کے خلاف الزام تراشیوں اورجھوٹے مقدمات بنانے کی نذر کردئیے ۔ انہوںنے کہا کہ جناب سپیکر آپ کو یاد ہوگا کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے 2017.18میں اپنا آخری بجٹ پیش کیا تھا اس وقت ملکی معیشت کی شرح نمو میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا ، فی کس آمدنی 1629ڈالر تک پہنچ چکی تھی ۔دنیا بھر میں پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری کیلئے ایک موزوں ملک قرار دیا جاچکا تھا ۔ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ ایشیاء کی دوسری اوردنیا کی پانچ بڑی مارکیٹوں میں شمار کی جارہی تھی اورعالمی سطح کے مالیاتی ادارے بھی اس معاشی ترقی کی تائید کررہے تھے ۔پاکستان اورچائنہ کے مابین سی پی ای سی کامعاہدہ محمد نوازشریف اورخادم اعلیٰ شہبازشریف کی معاملہ فہم اورولولہ انگیز قیادت میں تیزی سے اپنی تکمیل کی جانب رواں دواں تھا ۔
سی پی ای سی کے تحت 15ارب ڈالر کی تاریخ ساز سرمایہ کاری کی گئی جس کے تحت پنجاب میں مختلف منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد جاری تھا ۔ اس دور کا سب سے بڑا چیلنج توانائی کا بحران تھا جسے پہلی بار صوبائی سطح پر بجلی کے منصوبے لگا کرشکست دی گئی ۔ پنجاب میںبجلی کے کئی منصوبے اپنی پیداوار کا آغاز کرچکے تھے ۔ کل کامورخ جب پی ٹی آئی کے جرائم کی فہرست مرتب کرے گا تو میںدیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ ان جرائم میں سی پی ای سی کے ساتھ اس کی بد سلوکی اورہمسایہ دوست ملک چین کے ستاھ تعلقات میں رخنہ اندازی کی کوششوں کو سرفہرست رکھنے پر مجبور ہوگا ۔
جناب سپیکر پاکستان کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کون تھا جو پاکستان کے عظیم دوست چین کے صدر کے دورے میں ایک برس کی تاخیر کا باعث بنا وہ جانتے ہیں کہ وہ کون تھا جس نے سی پی ای سی کے تحت آنے والی سرمایہ کاری کو روکنے کیلئے یہ اعلان کیا تھا ہم برسراقتدار آکر نہ صرف یہ منصوبے روک دیں گے بلکہ ان میں شامل بین الاقوامی کمپنیوں کے خلاف مقدمات بھی چلائیں ے یہ تھا وہ مجرمانہ طرز عمل جس کا خمیازہ عوام آج تک بھگت رہی ہے لیکن ہم مایوس ہونے والوں میں سے نہیںکیونہ ہم نے گزرنے والے کل کو بھی بدلا تھا اور انشاء اللہ آنے والے کل کوبھی بدلیں گے ہمار اعزم نویہی ہے کہ کیا تھا کر کے دکھائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے شعوری طور پر اس امر پر توجہ نہ دی کہ توانائی کا مسئلہ درحقیقت دیگر تمام مسائل کی جڑ ہے جن میںبیروزگاری ، غربت اورمہنگائی بھی شامل ہیں ، یہ و ہ وقت تھاجب لوڈ شیڈنگ نے عوام کے کاروبار تباہ کردئیے تھے ۔
بڑے بڑے سرمایہ داربیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے تھے کاروباری طبقہ اثاثہ جات کی بیرون ملک منتقلی میں مصرو ف تھا ۔ دوسری طرف ملک میںبڑھتی ہوئی دہشت گردی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی تھی ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دن رات ایک کرک ے لوڈ شیڈنگ اوردہشت گردی کا خاتمہ کیا ۔اس طرح اقتصادی جمو ٹوٹا ،امن عامہ قائم ہوا ،کاروبار نے ترقی کی ،سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا اورمعاشی توازن اورسماجی ترقی کے اہداف کاحصول ممکن ہوا ۔ تعلیم میں سرمایہ کاری کا دعوی کرنے والوں کی فرد عمل اس شعبے میں بھی خالی نکلی ۔
پچھلے ساڑھے تین سالوںمیں سکولوں میںبچوں کی تعداد میں اضافے کی بجائے افسوس ناک حد تک کمی دیکھنے میں آئی ، صوبے میں9یونیورسٹیاں اور ہر ضلع میں گرلز کالجز بنانے کے جھوٹے اعلان کرنے والوںنے جاتے جاتے یکساں نظام تعلیم کے نام پر سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ نجی سکولوں کا مستقبل بھی دائو پر لگا دیا ۔انچارج وزیر برائے خزانہ اویس لغاری نے کہا کہ اسی طرح شعبہ صحت میں سوائے حسرت اورمایوسی کے عوام کے ہاتھ کچھ نہ آیا ۔عوام دشمنی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے کہ ہسپتالوںکے جنرل واڈز میں لگائے گئے ایئرکنڈیشنرز اور مفت ادویات کی فراہمی کانظام محض اس لئے لپیٹ دیاگیا کہ اس کا آغاز اور اہتمام خادم پنجاب کی کوششوں کا ثمر تھا ۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کینسر کے مریضوں کامفت اعلاج کا اعلان کیاتھا ۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اس موذی مرض کے علاج کے نام پر اپنی سیاست کی دکان چمکانے والوں نے حکومت میں آنے کے بعد جو پہلے اقدامات کئے ان میں کینسر کے غریب مریضوں کے مفت اعلاج کے پروگرام کے خاتمے کا اقدام بھی شامل ہے مسلم لیگ (ن) کے صحت کارڈ پر وگرام کوانصاف کارڈ کا نام دے کر عوامی اشک شوئی کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ۔ مسلم لیگ(ن) کو سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کوترجیح دینے کاطعنہ دینے والوں نے کوئی نیا ہسپتال قائم کیا اورنہ ہی کسی یونیورسٹی کے لئے کوئی نئی عمارت تعمیر کی ۔ سوشل سیکرتر کی ترقی کا نعرہ لگانے والے پہلے سے موجودہ تعلیمی اداروں کی نمائش اپ گریڈ یشن کے ذریعے یونیورسٹیوں اورکالجز کا درجہ دینے کے اعلانا ت کے سوا کچھ نہ کرسکے ۔انہوںنے ان نام نہاد اپ گریڈ تعلیمی اداروں میں مطلوبہ تدریسی عملہ دیا اورنہ ہی انہیں کوئی اضافی انفرسٹرکچر مہیا کیا۔
سماجی تحفظ کے نام پر عوام کو مستقل بنیادوں پر سہولیات فراہم کرنے کی بجائے انہیں پناہ گاہوں کے سبز باغ دکھائے گئے ۔ شہروں میں مواصلات کا نظام حکمرانوں کی بے حسی اور بیڈ گورننس کی نذر ہوکر رہ گیا اوردیہات میں سڑکوں کے جاری منصوبے داخل دفتر کردئیے گئے ۔ خادم پنجا ب کے 8000کلومیٹر سے زائد سڑکوں کے تاریخی منصوبے پکیاں سڑکاں سوکھے پینڈے کو نیا پاکستان منزلیں آسان کا نام دے کر اپنے نام لگوانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش ان حکمرانوں کو جگ ہنسائی کے ایک اورموقع کے سواہ کچھ نہ دے سکی ۔ا ج پی ٹی آئی پنجاب میں جن ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کا کریڈٹ لینے کی کوشش کررہی ہے ان میں سے شاید کوئی ایک منصوبہ ایسا ہو جس کا سنگ بنیاد مسلم لیگ(ن) کے دورحکومت میں نہ رکھا جاچکاہو ۔ خواتین کی سیاسی شمولیت کے علمبرداروں نے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کی بہبود کے شعبوں کو مسلسل نظر انداز کئے رکھا ۔ ایک کروڑ نوکریوں اور 50لاکھ گھروں کی فراہمی کاوعدہ بھی وفا نہیں کیا گیا ۔اپنی تقریروں میں صوبے کے غریب ترین عوام کو غربت کی لکیر سے او پر لانے کا نعرہ لگانے والے یہ نااہل حکمران آج عوام کے لئے مہنگائی کا طوفان کھڑا کر کے آئینی اور سیاسی بحرانوں کو ہوا دینے میں مصروف ہیں ۔
سابق حکومت کی نا اہلی اورکئی اہم ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد میں دانستہ تاخیر کے سبب آج متعدد منصوبوں کی لاگت میںکئی گنا اضافہ ہوچکا ہے اور جس کا خمیازہ قوم کو اربوں روپے کے اضافی اخراجات کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔انہوںنے کہا کہ ان معاشی حالات میں ایک مکمل متواز ن بجٹ پیش کرنا یقینا آسان نہیں تھا لیکن مسلم لیگ(ن) نے اس چیلنج کو بھی قبول کیا اور وزیراعلیٰ پنجاب کے احکامات کی روشنی میں ایک عوام دست بجٹ کی تیاری کو یقینی بنایا جس کی اہم ترجیح مہنگائی کے ستائے عوام کوسماجی تحفظ کی فراہمی ہے ۔یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ صوبائی بجٹ کی تیاری کے عمل میں محکمہ خزانہ اور محکمہ پلاننگ اینڈڈویلپمنٹ کے زیراہتمام ٹینکس ، معاشی ماہرین ،چیمبرز آف کامرس ،اکیڈیمیا اور عوامی حلقوں سے موصول ہونیو الی تجاویز کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے تا کہ بجٹ کو حقیقی معنوں میں عوام دوست بجٹ بنا جاسکے ۔انچارج وزیر برائے خزانہ نے کہا کہ اس سے پہلے کہ میں معزز ایوان کو مالی سال 2022-23کے بجٹ کے نمایاں خدوخال سے آگاہ کروں میں آپ کی توجہ ان حقائق کی طرف مبذول کروانا چاہوں گاجو ہماری معیشت کو براہ راست متاثر کررہے ہیں ،ان میں عالمی سطح پر پیدا ہوانے والے معاشی بحران کے علاوہ ملکی برآمدات میں ہونے والی کمی مہنگائی کا سبب بن رہی ہے اور دوسری طرف خام تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے پاکستانی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔انہوںنے کہا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی با ک نہیں کہ پاکستان کو درپیش موجودہ معاشی بحران کے بڑے اسباب میں مذکورہ بالا عوامل کے علاوہ ایک بڑا سبب وہ رویہ اورطرز عمل تھا جسے بد قسمتی سے پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے پہلے اور اس کے بعداختیار کئے رکھا ۔ اس ضمن میں چینی صدر کے دورے اور سی پی ای سی کے بار ے میں اس جماعت کے رویے کا تذکرہ میں پہلے کرچکا ہوں ۔
میں آپ کے توسط سے اس ایوان سے سوال کرنا چاہتاہوں کہ کیا کسی ایسے ملک میں بیرونی یا اندرونی سرمایہ کاری کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جس کا وزیراعظم اور اس کے ساتھی24گھنٹے ملک کو سیاسی عدم توازن اور بے یقینی کی صورتحال سے دو چار کرنے میں مصروف رہتے ہوں ، رہی سہی کسر سابق حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ سخت ترین شرائط پر طے کئے گئے معاہدے نے پوری کردی ۔نتیجتاًیہ ذمہ داری نئی بننے والی حکومت کے کاندھوں پر آن پڑی ۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ یہ معاہدہ پورا کرنا پڑا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدوں کی خلاف ورزی پاکستان پر ان کا اعتماد ختم کرسکتی ہے ۔انچارج وزیر برائے خزانہ نے ایوان کو بتایا کہ آئندہ مالی سال 2022-23بجٹ کا مجموعی حجم 3,226ارب روپے تجویز کیا جارہا ہے جس میں کل آمدن کا تخمینہ 2,521ارب 29کروڑ روپے لگا یا گیاہے جس میں وفاق کے قابل تقسیم محاصل سے پنجاب کیلئے 2,020ارب 74کروڑ روپے آمدن کا تخمینہ لگایاگیا ہے ۔ صوبائی محصولات کی مد میں پچھلے سال سے 24فیصد اضافے کے ساتھ 500ارب53کروڑ روپے تخمینہ لگایا گیا ہے جس میں پنجاب ریونیو اتھارٹی سے 22فیصد اضافے کے ساتھ190روپے ، بورڈ آف ریونیو سے 44فیصد اضافے کے ساتھ95ارب روپے اور محکمہ ایکسائز سے 2فیصد اضافے کے ساتھ43ارب 50کروڑ روپے کے محصولات کی وصولی کے اہداف مقر ر کئے گئے ہیں جبکہ نان ٹیکس ریونیو کی مد میں24فیصد اضافے کے ساتھ163ارب روپے53کروڑ روپے کا تخمینہ لگایاگیاہے ۔آئندہ مالی سال میں435ارب 87کروڑ روپے تنخواہوں ,312ارب روپے پنشن اور528ارب روپے مقامی حکومتوں کیلئے مختص کئے گئے ہیں ۔موجود ہ حکومت اپنے پچھلے دور کی طرح اس دور میں بھی ٹیکس وصولیوں میں نچلے طبقے پر بوجھ میں کمی اور صاحب حیثیت طبقات پر ٹیکس نیٹ کے پھیلائو کی عوام دوست پالیسی پر کاربند ہے ۔ آئندہ مالی سال میں پنجاب حکومت کی جانب سے سیلز ٹیکس آن سروسز کی مد میں کوئی نیاٹیکس نہیں لگایا جا رہاہے ۔ چھوٹے کاروباروں کی سہولت کیلئے سیلز ٹیکس آن سروسز میں ٹیکس ریلیف کے ساتھ ساتھ کسی سروس پرٹیکس کی شرح میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا جارہا ۔ تاہم صوبے کے ذاتی محصولات میں اضافے کیلئے شہری علاقوں میں اسٹیمپ ڈیوٹی کی شرح کو 1فیصد سے بڑھا کر 2فیصد کرنے کی تجویز دی جارہی ہے
۔انہوںنے کہا کہ حکومت نے اس امر کا خصوصی خیال رکھا ہے کہ مراعات یافتہ متمول طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے جبکہ مستحق اور کم آمدنی والے طبقے کو ادائیگیوں میں چھوٹ دی جائے ۔اس ضمن میں پنجاب فنانس ایکٹ2014کے تحت پر تعیش گھروں پر عائد کردہ لگژری ہائوس ٹیکس شیڈول میں بلحاظ رقبہ نئے ریٹ متعارف کروائے جارہے ہیں جن کا اطلاق یکم جولائی 2022سے ہوگا ۔
آئندہ مال سال میں موٹر گاڑیوں کے پرکشش نمبروں کی نیلامی کے لئے نظر ثانی شدہ ای ایکشن پالیسی کا اجرا ء کیاجارہا ہے ۔آئندہ مال سال کے بجٹ کا مجموعی حجم 3,226ارب تجویز کیاجارہاہے جو گزشتہ مال سال سے 22فیصد زائد ہے جس میں سے 1,712ارب روپے جاری اخراجات کی مدمیں تجویز کئے گئے ہیں ۔خادم پنجاب کی روایت کے عین مطاقب محروم معیشت طبقوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہمارے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی اولین ترجیحات میں شامل ہے ۔ چنانچہ میں ان کی ہدایات کے مطابق اس معزز ایوان میں پنجاب کے غریب عوام کیلئے صوبے کی تاریخ کے سب سے بڑے امدادی پیکج کا اعلان کرنے کااعزاز حاصل کررہا ہوں ۔انہوںنے کہا کہ حکومت نے وزیراعلی عوامی سہولت پیکج کے تحت200ارب روپے کی خطیر رقم سے عام آدمی کیلئے سستے آٹے کی فراہمی کو یقینی بنا دیا ہے اس تاریخی پیکج کے تحت 10کلو آٹے کا تھیلاجو پہلے650روپے بیجا جارہا تھا اب عوام کو 490روپے میں دستیاب ہے ۔مجھے اس ایوان میں 200ارب روپے کے اس عوامی پیکج کے ساتھ ساتھ غریب عوام کی سہولت کیلئے ایک بڑے رعایتی پیکج کا اعلان کرنے کااعزاز بھی حاصل ہورہا ہے ۔ا س پیکج کی مالیت142ارب روپے ہے جس کے تحت عوام کو اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں مین کمی ، رعایتی نرخوں پر سفری سہولیات کی فراہمی ، غریب کاشتکاروں کو کھاد کی رعایتی نرخوں میں دستیابی اور دیگر زرعی ضروریات کی فراہمی شامل ہیں ۔
میں اس معزز ایوان کو یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کررہا ہوں کہ ہماری حکو مت اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ترقیاتی بجٹ میں ریکارڈ اضافے کا اعلان کررہی ہے ۔ آئندہ ترقیاتی پروگرام کیلئے 22فیصد اضافے کے ساتھ 685ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں ۔مالی سال 2022.23کا یہ بجٹ مہنگائی ،توانائی کے بحران اورسماجی عدم تحفظ جیسے مسائل کا توڑ ہوگا ۔ ہم آئندہ مالی سال کے بجٹ کو ترقی کے اسی مربوط نظام کے ساتھ منسلک کرنے جارہے ہیں جس کا سلسلہ 2018میں منقطع ہوا تھا ۔15ماہ کا یہ مختصر دورانیہ جو ہمیں سابق حکومت کی نا اہلی کے سبب میسر آیا ہے اس میں تمام خرابیوں کی اصلاح تو ممکن نہیں لیکن ہم اس امید کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ اس مختصر دورانیے میں نئے عزم کے ساتھ کی گئی اصلاحات اورپنجاب اسپیڈ کی بحالی مایوس عوام کے حکومت پر اعتماد کو یقینی بنائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے مالی سال 2022-23کے اس بجٹ کو کر کے دکھائیں گے کے نعرے سے موسوم کیا ہے ۔
ترقیاتی بجٹ کا 40فیصد سوشل سیکٹر 24فیصد انفراسٹرکچر ، 6فیصد پروڈکشن سیکٹر اور2فیصد سروسز سیکٹر پر مشتمل ہے جبکہ دیگر پروگرامز اور خصوصی اقدامات کیلئے 28فیصد مختص کئے گئے ہیں ۔پی ٹی آئی کے دورحکومت میں بین الاضلاعی سڑکوں کی تعمیر اور مرمت سے بھی مجرمانہ غفلت برتی گئی ، ہم نے مالی سال 2022-23کے دوران ان سڑکوں کی تعمیر اورمرمت کیلئے 35ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے ۔ تعمیر وترقی کیلئے کے اس منصوبے سے جہاں لاکھوں افراد کو آسان سفر میں سہولیت میسرا سکے گی وہاں اقدام سے شہروں اور دیہات کی معاشی سرگرمیوں میںبھی اضافہ ہوگا ۔آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ قیدیوں کیلئے بین الاقوامی طور مسلمہ حقوق کو یقینی بنانا ہر انسان دوست حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہیے ، چنانچہ پنجاب حکومت اس ضمن میں قیدیوں کی فلاح و بہبود اورجیلوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کیلئے 6ارب روپے مختص کررہی ہے جس کے تحت پریژنرویلفیئر اور کوریکشنل فیسلیٹیز ری ویمپنگ پروگرام کا آغاز کیا جارہاہے ۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دورحکومت کے دوران جن حکومتی اقدامات اورمنصوبوں کی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر غیر معمولی طور پر سراہا گیا ان میں صوبائی دار لحکومت میں پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کا قیام بھی شامل ہے ۔ اس اتھارٹی کے تحت جرائم پیشہ عناصر کی نگرانی اور انہیں قانون کی گرفت میں لانے کیلئے اربوں کی لاگت سے جدید ترین کیمروں پر مبنی نظام کی داغ بیل ڈالی گئی ۔ پنجاب حکومت کا یہ شاندار منصوبہ بھی سابق حکومت کی عدم دلچسپی کا شکار رہا جس کی وجہ سے یکے بعد کیمرے خراب ہوتے چلے گئے جس کا لازمی نتیجہ جرائم میں بے پناہ اضافہ تھا ۔ آئندہ مالی سال میں ہماری حکومت اس منصوبے کی اصل شکل میں بحالی کے ساتھ ساتھ اس کی توسیع کرنے کاارادہ بھی رکھتی ہے ۔حکومت اس مقصد کیلئے پہلے مرحلے میں3ارب 6کروڑ روپے کے فنڈز مختص کررہی ہے ۔
انہوںنے کہا کہ ہمیں فخرہے کہ ہماری حکومت نے2016کے دوران پنجاب میں صحت کا رڈ کا اجرا ء کیا تھا ۔ غریب عوام کیلئے ہیلتھ انشورنس کا پروگرام بھی اسی سکیم کا حصہ تھا ۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اسی سکیم کو انصاف کارڈ کا نام دے کر اپنے لئے سستی شہرت کے حصول کا وسیلہ بنانا چاہا ۔ دنیا جانتی ہے کہ انصاف کار ڈ کے حوالے سے کئے جانے ولے گزشتہ حکومت کے تمام دعوے اس کے باقی اعلانات کی طرح بے بنیاد ثابت ہوئے ہم نے غریب عوام کو صحت عامہ کی سہولت فراہم کرنے کے لئے ترقیاتی بجٹ میں گزشتہ برس کے 60ارب روپے کے مقابلے میں 125ارب 34کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے۔میں یہاں یہ بھی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم نے اپنی ہیلتھ سکیم میں اس امر کو بھی یقینی بنایا ہے کہ اس مد میں مختص کئے جانے والے قومی سرمایے کا زیادہ سے زیادہ حصہ غریب طبقے کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے پر صرف کیا جائے ، آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ و ہ صاحب ثروت لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی نعمت سے نواز ہے انہیں اپنے صحت کے مسائل کے حل کیلئے حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے ذاتی وسائل پر انحصار کرنا چاہیے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے پنجاب کے ہونہار مگرکم وسیلہ نوجوانوں کیلئے جب لیپ ٹاپ اسکیم کا آغاز کیاتھا تو ہمارے مخالفین کی طرف سے اس پر بھی تنقید کی گئی تھی ۔ حالیہ برسوں میں ورک فروم ہوم اور آن لائن ایجوکیشن کی اہمیت میں اضافے نے اس سکیم کی افادیت کو دوچند کردیا ہے ۔ اس مقصد کیلئے آئندہ مالی سال میں 1ارب 50کروڑ روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہمارے مخالفین نے اقتدار کے حصوصل کیلئے جو جائز اورناجائز حربے استعمال کئے ان میں جنوبی پنجاب کارڈ کا استعمال بھی شامل تھا آپ کا یاد ہوگا کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت اپنے پچھلے تمام ادوار میں جنوبی پنجاب کی آبادی کے اعتبار سے بجٹ مختص کرتی رہی ، پی ٹی آئی حکومت کے گزشتہ تین برسوں کے بجٹ ہمارے سامنے ہیں ان میں سے ایک بجٹ میں بھی جنوبی پنجاب کے علاقوں کیلئے اتنی رقوم مختص نہیںکی گئیں جتنی مسلم لیگ (ن) کی حکومت ان علاقوں کیلئے ہر برس مختص کیا کرتی تھی ۔
انہوںنے کہا کہ اس معزز ایوان کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ حکومت نے آئندہ مالی سال میں جنوبی پنجاب کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا 35فیصد حصہ مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔240ارب روپے کی یہ خطیر رقم جنوبی پنجاب میں زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی اقدامات پر صرف کی جائے گی ۔ ہم اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ اس رقم کی ایک ایک پائی صرف اور صرف جنوبی پنجاب کی بہتری اورترقی کیلئے صرف ہو اوراسے کسی اورمقصد کیلئے استعمال نہ کیا جائے ۔ ہم اس معزز ایوان کو اس امر کا بھی یقین دلاتے ہیں کہ اس رقم میں سال بھر کے دوران کسی قسم کی کٹوتی نہیں کی جائے گی ۔انہوںنے آئندہ مال کے میزانیے میں پنجاب حکومت کے ترجیحی شعبہ جات کے لئے مختص فنڈز اور اہم اقدامات کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم ، صحت ،واٹر سپلائی اینڈ سینی ٹیشن ، وویمن ڈویلپمنٹ او ر سوشل ویلفیئر پر مشتمل سوشل سیکٹر ماضی میں بھی ہماری اولین ترجیح رہاہے اور مستقبل میں بھی یہ شعبہ ہماری توجہ کا مرکز رہے گا ۔ آئندہ مال سال کے بجٹ میں سوشل سیکٹر کیلئے مجموعی طور پر 272ارب 60کرور روپے مختص کئے گئے ہیں جو ترقیاتی فنڈز کا 40فیصد ہیں۔ اس کے علاوہ تمام واسا کیلئے 7ارب روپے کے فنڈز مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔یہاں میں بتاتے ہوئے فخرمحسوس کررہا ہوں کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کے شعبہ کے لئے مجموعی طور پر 485ارب26کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی جاری ہے جو سابق دورحکومت میں مختص کردہ فنڈز سے 10فیصد زیادہ ہے ۔ شعبہ تعلیم کیلئے مختص مجموعی بجٹ میں428ارب56کروڑ روپے غیر ترقیاتی جبکہ56ارب 70کروڑ روپے ترقیاتی اخراجات کے لئے مخصوص کئے گئے ہیں ۔ شعبہ تعلیم کے مختص شدہ مجموعی بجٹ میں سے محکمہ سکول ایجوکیشن کیلئے 421ارب 6کروڑ روپے ، محکمہ ہائر ایجوکیشن کیلئے 59ارب 7کروڑ روپے ، محکمہ سپیشل ایجوکیشن کیلئے 1ارب 52کروڑ اورلٹریسی وغیر رسمی تعلیم کیلئے 3ارب 59کروڑ مختص کئے گئے ہیں
۔تعلیم کافروغ اوراس کے معیار میںبہتری مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا ہمیشہ طرہ امتیاز رہا ہے ۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت اس امر پر پختہ یقین رکھتی ہے کہ تعلیمی میدان میں اعلی اہداف کے حصول کے بغیر پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کرسکتا ۔ہماری تمام پچھلی حکومتوں کا ریکارڈ ہمارے اس یقین کی عملی گواہی دیتا ہے شعبہ تعلیم میںکئے جانے والے ان اقدامات کو جہاں بین الاقوامی اداروں نے سراہا وہاں عالمی سطح کے اکانومٹس جیسے جریدے بھی ان کا اعتراف کرتے ہوئے دکھائی دئیے ۔ آج ہم پھر پڑھو پنجاب ، بڑھو پنجاب کا وہی عزم لے کر اسی ولولے کے ساتھ تعلیم کے میدان میں انقلاب کی راہ پر گامز ن ہیں ۔ اس نصب العین کے حصول کیلئے محکمہ اسکول ایجوکیشن کیلئے مختص کردہ 382ارب روپے کے جاری اخراجات میں زیور تعلیم پروگرام کے تحت 5ارب 53کروڑ روپے 6لاکھ سے زائد طالبات کو تعلیمی وظائف کی فراہمی کیلئے رکھے گئے ہیں جبکہ اسکولوں میں مفت کتب کی فراہمی کیلئے 3ارب 20کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں اسکول کونسلز کے ذریعے تعلیمی سہولیات کی بہتری کے لئے 14ارب 93کروڑ اور دانش سکولز کے جاری تعلیمی اخراجات کیلئے 3ارب75کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ محکمہ سکول ایجوکیشن کیلئے مختص کردہ39ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز میں سے آئندہ مالی سال میں نئے دانش اسکولز کی تعمیری کیلئے 1ارب 50کروڑ روپے ، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پروگرام کے تحت پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کیلئے 21ارب50کروڑ روپے اور پی ای آئی ایم اے کیلئے 4ارب 80کروڑ روپے ،اسکولوں کی خستہ حال عمارتوں کی بحالی کیلئے 1ارب 50کروڑ روپے اور صوبہ بھر کے مختلف سکولوں میں اضافی کمروں کے قیام کیلئے 1ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،ان اقدامات سے صوبہ بھر میں معیاری تعلیم کی فراہمی کا وعدہ پورا ہوگا اور تعلیم تک رسائی بہتر ہوگی ۔پی ٹی آئی کی حکومت کے تحت مسلم لیگ(ن) کے عوامی فلاح کے جن منصوبوں پر کام روک دیا گیا ہے ان میں دیگر منصوبوں کے علاوہ عوامی مقامات ، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں میں وائی فائی کی فراہمی بھی شامل تھی ،ہماری حکومت نے نوجوانوں اور طالب علموں کی تعلیمی ضرورتوں کے پیش نظر ان منصوبوں کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ہائرایجوکیشن کے شعبے کیلئے مجموعی طور پر 59ارب 7کروڑ روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے جس میں سے13ارب 50کروڑ روپے ترقیاتی مقاصد کیلئے مختص کئے گئے ہیں ۔2022.23کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں محکمہ ہائر ایجوکیشن کی نمایاں اسکیموں میں2ارب 32کروڑ روپے کی لاگت سے مختلف اضلاع میں 13نئے کالجز کا قیام ،80کروڑپے روپے کی لاگت سے خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یارخان میںکیمیکل اینڈ ایگری کلچر انجینئرنگ بلاک کا قیام شامل ہیں ، اس کے علاوہ گریجوایٹ کالجز اور ایسوسی ایٹ کالجز میں اضافی کلاس رومز اور فرنیچر کی فراہمی کیلئے 2ارب روپے مختص کئے گئے ہیں صوبے بھر میں مختلف کالجز میںسائنس ،آئی ٹی کے آلات، آئی ٹی لیبز ،بی ایس بلاک کی فراہمی کیلئے 1ارب50کروڑ روپے کی تخصیص آئندہ مالی سال کے بجٹ کا حصہ ہے ۔ہم اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ خصوضی بچے ریاست کی خصوصی توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں ان کی ضروریات عام بچوں سے مختلف ہوتی ہیں جنہیں اگر پورانہ کیا جائے تو وہ احسا س کمتری کا شکار ہوکر اپنی ان خدادا د صلاحیتوں کو استعمال میں نہیں لاپاتے جوقدرت نہیں انہیں عطا ء کی ہوتی ہیں ،ان مقاصد کے حصول کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں شعبہ خصوصی تعلیم کیلئے 1ارب 52کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس میں1ارب 20کروڑ روپے ترقیاتی مقاصد کیلئے تجویز کئے گئے ہیں ۔محکمہ خصوصی تعلیم کا یہ ترقیاتی بجٹ 9خصوصی تعلیمی مراکز کا قیام اورخصوصی تعلیمی اداروں میں عدم دستیاب سہولیات کی فراہمی بالخصوص ٹرانسپورٹ کی سہولت کی فراہمی کیلئے خرچ کیا جائے گا ۔
محکمہ لٹریسی اینڈ نان فارمل بیسک ایجوکیشن کیلئے آئندہ سال کے بجٹ میں3ارب 59کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں سے 3ارب روپے ترقیاتی مقاصد کیلئے مہیا کئے جارہے ہیں ۔صحت کے شعبے میںبہترین سہولیات کی فراہمی ہمیشہ سے مسلم لیگ(ن) کی اولین ترجیح رہی ہے ۔ طیب اردگا ن ہسپتال مظفر گڑھ ، صحت کارڈ اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹیز کا قیام ہماری ہی حکومت کے انقلابی اقدامات ہیں ۔ا ئندہ مالی سال میں بھی صحت کے شعبہ میں صوبائی ،ضلعی اورمقامی سطح پر کئی نئے اقدمات متعارف کروائے جارہے ہیں ۔ آئندہ مالی سال میں صحت کے شعبے میں صوبائی ،ضلعی اورمقامی سطح پر کئی نئے اقدامات متعارف کروائے جارہے ہیں ۔ آئندہ مالی میں صحت کے شعبہ کیلئے مجموعی طور پر 470ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جوپچھلے سال سے 27فیصد زیادہ ہیں جس میں 296ارب روپے غیر ترقیاتی اخراجات اور174ارب50کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز کئے لئے مختص کئے گئے ہیں ۔
کینسر اور دل کے امراض کی طرح گردے اور جگر کی بیماریوں کاعلاج بھی ایک انتہائی مہنگا اور سنگین مسئلہ ہے ۔ اس مقصد کیلئے مریضوں کو عمومابیرون ملک جانا پڑتا تھا ۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے ان امراض کے علاج کیلئے صوبے میں پی کے ایل آئی کے نام سے ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال کی بنیاد رکھی ۔ سابق دور حکومت میں اس عوام دوست منصوبے اور اس کے مسیحا صفت منتظمین پرکیا بیتی ، اس افسوسناک حقیقت سے پاکستان کا ہر فرد آگاہ ہے یہ کہانی اقربا پروری ، ذاتی عناد اورسیاسی انتقام کی بدترین مثال ہے ۔ ہمیں یہ فخر ہے کہ عوامی فلاح کے اس قومی منصوبے کا ہم دوبارہ آغاز کرنے جارہے ہیں جس کیلئے 5ارب روپے آئندہ مالی سال کیلئے مختص کئے گئے ہیں ۔
مسلم لیگ(ن) پاکستان کی تاریخ میں عوام کیلئے مفت ادویات فراہم کرنے کا اعزاز حاصل کرنے والی پہلی سیاسی جماعت ہے ۔د وسری طرف ایوان کے اس جانب بیٹھے ہوئے دوستوں کی جماعت کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو اولین اقدامات کئے ان میں عوام کیلئے مفت ادویات کی فراہمی کا خاتمہ بھی شامل تھا ۔ میں نے نہایت خوشی کے احساس کے ساتھ یہ اعلان کررہا ہوں کہ پنجاب کی حکومت نے یکم جولائی 2022سے صوبے بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات کی فراہمی کے سلسلے کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے میں اس موقع پر صوبے بھر میں کینسر میں مبتلا غریب مریضوں کیلئے مفت ادویات کی فراہمی بحال کرنے کا اعلان بھی کررہا ہوں ،ا یوان کے اس جانب بیٹھے ہوئے معزز ساتھی اراکین کو مبارک ہوکہ خدمت خلق کے اس سلسلے کو روکنے کا سہرہ بھی آپ کے سر جاتا ہے ۔
وقت آگیا ہے کہ ہم ماضی روش ترک کرتے ہوئے آبادی میں اضافے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے تدارک کیلئے موثر اورنتیجہ خیز اقدامات بروئے کار لائیں ۔پنجاب حکومت اس مقصد کے حصول کیلئے 4ارب روپے کی لاگت سے فیملی پلاننگ سروسز کی فراہمی کے سلسلے کا آغاز کرنے جارہی ہے ۔شعبہ صحت کے 2022-23کے مجموعی ترقیاتی بجٹ میں پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کیلئے21ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں ۔پرائمری ہیلتھ کیئر کے نمایاں ترقیاتی منصوبہ جات میں3ارب 87کروڑ روپے کی لاگت سے نیشنل ہیلتھ سپورٹ پروگرام کا اجرا اور 3ارب روپے کی لاگت سے ہیلتھ کونسلز میں عدم دستیاب سہولیات کی فراہمی کویقینی بنایا جائے گا ۔ علاوہ ازیں 5ارب 80کروڑ روپے کی لاگت سے ہسپتالوں میں عدم دستیاب سہولیات کی فراہمی ، عمارتوں کی مرمت و بحالی ، طبی آلات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے کئی اقدامات کئے جارہے ہیں جن کے تحت3ارب 10کروڑ روپے جاری منصوبوں اور2ارب70کروڑ روپے نئے منصوبوں کیلئے آئندہ مالی سال میں مختص کئے جارہے ہیں ۔
اس کے علاوہ 1ارب روپے کی لاگت سے صوبے کے ٹی ایچ کیو ہسپتالوں میں سی ٹی سکین اور2ارب روپے کی لاگت سے ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں ایم آر آئی کی سہولت فراہم کی جائے گی ۔ 90کروڑ روپے کی لاگت سے میڈیکل سٹورڈیپارٹ کا قیام ،40کروڑ روپے کی لاگت سے جیلوں میں قیدیوں کو طبی سہولیات کی فراہمی اور 40کروڑ روپے کی لاگت سے خصوصی بچوں کے اسکولوں میں طبی سہولیات کی فراہمی شامل ہیں ۔کمیونٹی کیبل ڈسیز کنٹرول پروگرام اور انفیشکن کنٹرول پروگرام کیلئے مجموعی طور رپ 2ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی جارہی ہے شعبہ صحت کے 2022-23کے مجموعی ترقیاتی بجٹ میں سپیشلائز ڈ ہیلتھ کیئر کیلئے 151ارب 50کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جو پچھلے سال کے بجٹ سے 93فیصد زیادہ ہیں ۔ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے اہم منصوبہ جات میں صحت کارڈ کے علاوہ 5ارب روپے کی لاگت سے شروع کیا جانے والا ہسپتالوں کی بحالی کا پروگرام ،3ارب روپے کی لاگت سے 4اضلاع میںڈی ایچ کیو کے پرانے بلاکس کی جدید ٹیکنالوجی پر منتقلی ،2ارب روپے کی لاگت سے میڈیکل کالجز کے ہاسٹلز کی اپ گریڈیشن اور2ارب روپے کی لاگت سے ٹرٹیری ہسپتالوں میں سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی سہولیات کی فراہمی شامل ہیں ۔
اس کے علاوہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے دیگر پروگرامز میں90کروڑ روپے کی لاگت سے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی فراہمی ، ملتان میں50کروڑ روپے کی لاگت سے 70بستروں پر مشتمل ٹراما سنٹر کا قیام شامل ہے اور اس کے علاوہ نارروال اور اوکاڑہ میں نئے میڈیکل کالجوں کا قیام بھی آئندہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہے ۔سابق حکومت نے اپنے دور میں نرسنگ اسکولوں کی نمائشی اپ گریڈیشن کی تھی جسے اب ہماری حکومت حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنانے جاری ہے ۔ اس ضمن میں آئندہ مالی سال میں2ارب 50کروڑ روپے کی لاگت سے نرسنگ کالجوں کو تمام بنیادی سہولیات مہیار کی جارہی ہیں اس مد میں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں40کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ پی کے ایل آئی نرسنگ یونیورسٹی کا منصوبہ جو کہ ہماری ہی حکومت کا انقلابی منصوبہ تھاجس کے تحت پنجاب میں پہلی نرسنگ یونیورسٹی قائم کی جانی تھی لیکن سابق حکومت کی عدم دلچسپی نے اسے سر د خانے کی نذ ر کردیا ہے ۔
ہماری حکومت ازسر نو 3ارب50کروڑ روپے کی لاگت سے اس منصوبے کا آغاز کرنے جارہی ہے جس کیلئے آئندہ مالی سال میں1ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔وسائل سے محروم طبقے کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے ۔ اپنے پچھلے دورمیں سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے قیام سے ہمارا مقصد اسی طبقے کے مسائل کا حل تھا جسے سابق حکومت نے نظر انداز کیا ۔ا ئندہ مالی سال کیلئے 1ارب40کروڑ روپے سے زائد کے فنڈز مختص کئے جارہے ہیں جس کے تحت سینر سٹیزن کا ماہانہ 2ہزار روپے کی مالی معاونت کیلئے پروگرام کا آغاز کیا جارہاہے ،مزید برآں خصوصی افراد ، خواجہ سرائوں اوربیوائوں کیلئے بھی خصوصی منصوبوں کا آغاز کیا جارہاہے ۔انچارج وزیر برائے خزانہ اویس لغاری نے بجٹ دستاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ معاشی صورتحال میں سب سے بڑا چیلنج درآمد ات پر انحصار کم کرکے برآمدات میں اضافے پر توجہ مرکوز کرنا ہے ۔ سابقہ دور حکومت میں مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے زراعت کے شعبے میں بھی مافیاز کو پروان چڑھا یا جس کی وجہ سے پنجاب جیسے صوبے میں جسے اناج کا گھر کہا جاتا ہے ، آٹے اورچینی کا بحران پیدا ہوا اور کسانوں کو استحصال کا نشانہ بنایا گیا ، یہ تھے وہ حالات جن میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے گندم کی خریداری کے ہدف کا چیلنج نہ صرف قبول کیا بلکہ اس ہدف کو پوار کرتے ہوئے کسان کو اس کی پیداوار کے پورے معاوضے کو بھی یقینی بنایا گیا ۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زراعت کے شعبہ کیلئے مجموعی طور پر 53ارب 19کروڑ روپے مختص کررہی ہے جن میں سے `14ارب 77کروڑ روپے ترقیاتی مقاصد کے حصول پر خرچ کئے جائیں گے ۔ اس کے علاوہ زرعی شعبہ میںانسنٹو بیسڈ کراپ زوننگ کو فروغ دیا جائے گا جس کے تحت پنجاب کی زمینوں کے زرعی پوٹینشل کے مطابق زوننگ کے بعد کسانوں کو ضرورت کے مطابق سہولیات اورمراعات مہیا کی جائیں گی ۔ اس کے علاوہ آبپاشی کے شعبہ میں ڈرپ ایری گیشن اور سپرنکلر ایریگیشن کو فروغ دیا جائے گا ۔
اس سے نہ صرف پانی کی بچت بلکہ ایگری کلچر کو شعبہ ٹیکنالوکی سے ہم آہنگ ہوسکے گا ۔ہماری حکومت زرع اجناس کی پیداوار میں اضافے کیلئے ایک جامع پروگرام پی آر آئی اے ٹی کے نام سے متعارف کررہی ہے جس کے تحت زرعی شعبہ کو جدیدبین الاقوامی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا جا سکے گا اس مقصد کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں3ارب 65کروڑ روپے مختص کئے جارہے ہیں ۔ز رعی شعبے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی اہمیت کے پیش نظر ہماری حکومت آئندہ مالی سال میں8نئے منصوبوں کا آغاز کرنے جارہی ہے جن میں دالیں ، مونگ پھلی اور بلیک بیری جیسی ہائی ویلیو فصلوں کی پیداوار میں اضافے کو ممکن بنایا جاسکے گا ۔ اس طرز کے منصوبوں سے صوبے میں زرعی معیشت کو فروغ حاصل ہوگا ۔
انہوں نے بتایا کہ لائیو اسٹاک کے شعبہ میں تحقیق اور تدریس کے فروغ کیلئے چیچہ وطی میں2ارب 85کروڑ روپے کی لاگت سے یو وی اے ایس کے سب کیمپس کا قیام عمل میں لایا جارہاہے جس کے لئے آئندہ مالی کے بجٹ میں35کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی جارہی ہے اس کے علاوہ لاہور ، ڈی جی خان ، بہاولپور ، راولپنڈی اور سرگودھا میں 1ارب 58کروڑ روپے کی لاگت سے لائیو اسٹاک میں عدم دستیاب سہولیات کی فراہمی کے پروگرام کا آغاز کیا جارہا ہے جس کیلئے آئندہ بجٹ میں60کروڑ روپے مختص کئے جارہے ہیں ۔ لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مجموعی طور پر 19ارب 40کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں سے 4ارب29کروڑ روپے ترقیاتی اخراجات کیلئے مختص کئے گئے ہیں ۔ اویس لغاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پانی کا بحران عالمی نوعیت کا ایک سنگین مسئلہ ہے، اس اعتبار سے یہ شعبہ ہمار ی ترجیحات میںخصوصی توجہ کا حامل ہے ۔
آبپاشی کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مجموعی طور پر 53ارب 32کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں سے 25ارب69کروڑ روپے جاری اخراجات جبکہ27ارب 63کروڑ روپے ترقیاتی اخراجات کیلئے مختص کئے گئے ہیں ۔ پنجاب حکومت میں آئندہ مالی سال میں زرعی شعبہ کے فروغ کیلئے محکمہ آب پاشی کے تحت فصلوں کو پانی کی موزوںمقدار میںترسیل پر خصوصی توجہ دے رہی ہے ۔ اس مقصد کیلئے 4ارب 70کروڑ روپے کی لاگت سے خوشاب او رمیانوالی میں مہاجر برانچ کے مقام پر موہار لفٹ کی بحالی کے منصوبوں کا آغاز کیا جارہاہے ۔ اس کے علاوہ 80کروڑ روپے کی لاگت سے پوٹھو ہار میںچھوٹے ڈیمز کی بحالی اور اپ گریڈیشن عمل میں لائی جارہی ہے ۔ دریائی پانی سے زمینوں کے کٹائو کو روکنے کیلئے 2ارب 50کروڑ روپے کی لاگت سے 4نئے منصوبہ جات کا آغاز کیاجار ہا ہے ۔ اس کے علاوہ نہروں سے پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے نہروں کی پختگی کا منصوبہ بھی آئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہے جس کے لاگت 1ارب 80کروڑ روپے تخمینہ کی گئی ہے جس میں آئندہ مالی سال کیلئے 35کروڑ روپے مختص کئے جارہے ہیں ۔ اس کے علاوہ پنجند اورتریموں بیراج کی بحالی جس کا آغاز ہماری ہی حکومت میں ہوا تھا آئندہ مالی سا ل کے بجٹ میں چولستان کے باسیوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے 84کروڑ روپے مختص کئے جارہے ہیں ۔ انچارج وزیر برائے خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں انفراسٹرکچر کی مد میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کیلئے80ارب77کروڑ روپے کے فنڈز کی تخصیص کی گئی ہے جو پچھلے سال کی نسبت 39فیصد زیادہ ہے ۔ پنجاب حکومت صوبے بھر میں روڈ انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے 35ارب روے کی لاگت سے پہلے سے موجود سڑکوں کی بحالی اور مرمت اور بین الاضلاعی شاہرائوں کی تعمیر نو کے منصوبے متعارف کروارہی ہے جس کے تھ 2000کلو میٹر سے زائد طویل سڑکوں کی بحالی عمل میں لائی جائے گی ۔
اس مقصد کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 149سکیمیں شامل کی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ 13ارب 50کروڑ کی لاگت سے رنگ روڈ پروجیکٹ مزید دو فیز ( ملتان اور سیالکوٹ ) کا بھی آغاز کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت صنعتی شعبہ کی ترقی اور بحالی کیلئے ہمیشہ سے گرم رہی ہے ۔آئندہ مالی سال میں صنعت کے شعبہ مجموعی طور پر 23ارب83کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں سے12ارب53 کروڑ روپے ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص کئے گئے ہیں ۔ محکمہ صنعت کے نمایاں منصوبوں میںتیانجن یونیورسٹی کی استعداد میں اضافہ اور میر چکر خان رند یونیورسٹی کا قیام شامل ہے جن کی مجموعی لاگت 8ارب 25کروڑ روپے ہے اس کے علاوہ بہاولپور اندسٹریل اسٹیٹ کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جس کیلئے آئندہ سال کے بجٹ میں37کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔2ارب 10کروڑ روپے کی لاگت سے علامہ اقبال انڈسٹریل فیصل آباد کی اپ گریڈیشن اور پانی و بجلی فراہمی کو ممکن بنایا جارہا ہے ۔18کروڑ 50روپے کی مالیت سے قائد اعظم بزنس پارک میں عدم دستیاب سہولیات کی فراہمی کو منصوبہ بھی آئندہ مالی سال کے بجٹ میں شامل ہے ۔ سمال انڈسٹریل اسٹیٹ سرگودھا ، لیدر سٹی قصور اورفیز ٹو کا قیام بھی سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہے جن کی لاگت بالترتیب 2ارب اور1ارب16کروڑ روپے ہے ۔انہوںنے کہا کہ سابق حکومت نے اپنے دور میں خود تو ٹرانسپورٹ کا کوئی منصوبہ متعارف نہیں کروایا اس کے برعکس اورنج لائن ٹرین کے ہمارے مثالی عوامی منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے جس پر 90فیصد کام ہم مکمل کرچکے تھے ۔ ہمار ی حکومت آئندہ مالی سال میں اورنج ٹرین منصوبے کے علاوہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں سفری سہولیات کی فراہمی کیلئے 3ارب40کروڑ روپے کی مالیت سے جدید ، ماحول دوست اور آرام دہ بسیں چلانے کے منصوبے کا آغاز کررہی ہے جس کے لئے آئندہ مالی سال میں72کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے ۔ انہوںنے کہا کہ آئندہ مالی سال میں توانائی کے شعبے پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی ۔ ملک بھر میں بجلی کے بحران سے پیدا ہونے والی صورتحال تمام شعبہ ہائے زندگی کو بری طرح متاثر کررہی ہے ۔ ایک طرف عوام گرمی کی شدت سے بے حال ہے تو دوسری طرف لوڈ شیڈنگ کے سبب کاروبار کی تباہی نے ہر ایک کو پریشان کر رکھا ہے ۔ ہماری حکومت پہلے کی طرح اب لوڈشیڈنگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے توانائی کے متبادل ذرئع کے فروغ کو یقینی بنارہی ہے ۔
اس مقصد کیلئے انرجی ڈیپارٹمنٹ کے آئندہ سال کے ترقیاتی بجٹ میں 5ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی جارہی ہے ۔ علاوہ ازیں صوبہ بھر کی واٹر سپلائی اور آبپاشی کی سکیموں کو سولر سسٹم پر منتقل کرنے کیلئے 1ارب 50کروڑ روپے مختص کئے جارہے ہیں ۔ گھریلو صارفین کی شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ کے دوران پانی کی بلا تعطل فراہمی کیلئے تمام واسا کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لئے سولر سسٹم پر منتقل کیا جارہا ہے تاکہ توانائی کی کم سے کم کھپت کو یقینی بنایا جاسکے ۔ اویس لغاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے موسمی تغیرات اس وقت پوری دنیا میں چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں دیگر ممالک کی نسبت کم آلودگی پید ا کرنے کے باوجود پاکستان اس کا سب بڑ ا شکار ہے ۔ گزشتہ چند سالوں سے پنجاب میں آلودگی کی سنگین صورتحال سموگ کی شکل میں واضح طور پر دیکھی جارہی ہے ۔ اسی حقیقت کے پیش نظر پنجاب حکومت آئندہ مالی سال میں موسمی تغیرات سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کیلئے خصوصی طور پر 6 ارب روپے مختص کررہی ہے جس کے تحت سموگ ، فضائی آلودگی ،جنگلات میں اچانک سے بھڑکنے والی آگ ، درختوں کا کٹائو ، گرمی کی شدید لہر اور ایسی ہی دیگر قدرتی آفات سے نمٹا جاسکے گا ۔انہوںنے کہا کہ نوجوانوں کو صحت مندانہ سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کیلئے ہماری حکومت کھیلوں کے فروغ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے ۔
سوشل میڈیا کے منفی اثرات پر قابو پانے کیلئے اقداما دور رس نتائج کے حامل ہوںگے ۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میںسپورٹس اینڈ یوتھ افیئر ڈپیارٹمنٹ کے لئے مجموعی طور پر 8ارب 83 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جس مین سے7ارب 50کروڑ روپے ترقیاتی بجٹ کی مد میں تجویز کئے گئے ہیں اس ضمن میں تحصیل سپورٹس کمپلیکس کا قیام شامل ہے جس کی مد میں ا ئندہ مالی سال کے بجٹ میں40کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے ۔ 10کروڑ روپے کی لاگت سے سرکاری اسکولوں میں کھیل کے میدانوں کی اپ گریڈیشن کو منصوبہ بھی ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہے ۔ اس کے علاوہ 10کروڑ روپے کی لاگت سے جیلوں میں صحت مند سرگرمیوں کے فرو غ کے لئے کھیلوں کی سہولیات مہیا کی جارہی ہیں۔ خواتین کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا نصف سے زائد ہے ۔ ضروری ہے کہ ہم انہیں معاشی ترقی کے دھارے میں شامل رکھیں۔ مسلم لیگ(ن) اپنے ہر دور میں خواتین کی ترقی و بہبود کیلئے انقلابی اقدامات کرتی رہی ہے اپنی اس روایت کو قائم رکھتے ہوئے پنجاب حکومت آئندہ مالی سال میں ویمن آن وہیلز منصوبے کے تحت خواتین اساتذہ ، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور خواتین پولیو ورکرز کی آمد و رفت میں سہولت کیلئے سکوٹیز کا اجرا کررہی ہے ۔
خواتین پرتشدد کے خاتمے کیلئے مسلم لیگ(ن) کے سابق دور حکومت میں وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔ اس ضمن میں پہلا سنٹر ملتان میں بنایا گیا تھا اور ا ب اس کادائرہ کار مزید تین اضلاع تک بڑھایا جارہاہے ۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں گھروں سے دور ملازمت پیشہ خواتین کیلئے ویمن ہاسٹلز کا قیام عمل میں لا یا جارہا ہے ۔ اس مقصد کیلئے آئندہ مال سال کے بجٹ میں وہاڑی ، مظفر گڑھ اوررحیم یار خان میں ویمن ہاسٹلز کی تعمیر کیلئے 60کروڑ روپے مختص کئے جارہے ہیں ۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ویمن ڈویلپمنٹ کیلئے مجموعی طور پر 1ارب27کروڑ رپے مختص کئے گئے ہیں جو اس شعبہ میں پہلے سے جاری منصوبہ جات کی تکمیل کو یقینی بنائیں گے ۔اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جس کی تائید پاکستان آئین بھی کرتا ے ۔ ہماری حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اقلیتوں کے تحفظ کیلئے 2ارب 50کروڑ روپے تجویز کررہی ہے جس میں سے 1ارب 35کروڑ مینارٹی ڈویلپمنٹ فنڈ کیلئے مختص کئے جارہے ہیں جبکہ باقی ماندہ فنڈز اقلیتی آبادیوں اور عبادت گاہوں میں عدم دستیاب سہولیات کی فراہمی پر خرچ کئے جائیں گے ۔
آئندہ مالی سا ل میں مقامی حکومتوں کیلئے 528ارب روپے مختص کئے گئے ہیں لوکل گورنمنٹ کے تحت آئندہ مالی سال میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے پی آئی سی آئی آئی پی ) کے تحت 7شہروں میں سیوریج ،سالڈویسٹ مینجمنٹ اور شہروں کی بہتر منصوبہ بندی کا ماسٹر پلان متعارف کروایا جائے گا جن میں راولپنڈی ، ملتان ،سرگودھا ، مظفر گڑھ ، بہاولپور ، ڈی جی خان اور رحیم یار خان شامل ہیں ۔ منصوبہ کی کل مالیت کا تخمینہ 600ملین ڈالرز لگا یا گیا ہے ۔ صاف دیہات پروگرام کے تحت2000سے زائد گھرانوں پر مشتمل ہر دیہات کی صفائی ستھرائی اور دیگر میونسپل سروسز کی فراہمی کا آغاز کیا جارہا ہے ۔مزید برآں محکمے کے ترقیاتی بجٹ میں50کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جن سے جھنگ ، ٹوبہ ٹیک سنگ ، وہاڑی ،راجن پور ، رحیم یار خان ، اور خوشاب میںجنرل بس اسٹینڈ کی حالت کو بہتر بنایا جائے گا ۔ جنرل بس اسٹینڈ کی بہتری سے نئے ٹرانسپورٹرکی آمد کے سبب روزگار کے مواقع بھی پیدا کئے جاسکیں گے ۔ اس کے علاوہ ضلع خوشاب ،جھنگ ، نارووال اورسرگودھا میں سلاٹر ہائوسز کی بہتری کیلئے 50کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں تاکہ عام لوگوں کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق صاف اور صحت مند گوشت کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے ۔ حکومت پنجاب بڑھتی ہوئی مہنگائی میں سرکاری ملازمین کی مشکلات سے بھی بخوبی آگاہ ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مک کے اچھے اور برے حالات میں اپنے فرائض تندہی سے سرانجام دیتے ہیں اورنظام مملکت کو تعطل کا شکار نہیں ہونے دیتے ۔مالی سال2022.23کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ اورپنشن میں 5فیصد اضافے کا فیصلہ کیاگیا ہے ۔اس علاہ بجٹ میں مہنگائی اورآمدن کی شرح میں بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کیلئے خصوصی الائونس تجویز کیاگیا ہے جس کے تحت گریڈ1سے 19تک کے ایسے ملازمین جو اپنے الائونسز کی انتہائی حدسے کم الائونسز وصول کررہے ہیں انہیں اضافی 15فیصد اسپیشل الائونس دیا جائے گا ۔
اس ضمن میں صوبے کے دیہاڑی دار طبقہ اورمزدوروں کو بھی نظرا نداز نہیں کیا جارہا ہے ۔حکومت کی جانب سے دیہاڑی داری طبقہ اور مزدوروں کی کم ازکم اجرت 20ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 25ہزا ر روپے ماہانہ مقرر کی جارہی ہے ۔ اپنی تقریر کے اختتام پر میں تمام ارکین اسمبلی اورسرکاری اداروں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گاجنہوںنے بجٹ کی تیار ی کے عمل میں حصہ لے کر اس اہم ذمہ داری کو پورا کرنے میں ہماری مدد کی ۔ میںبالخصوصی محکمہ خزانہ اور پی اینڈ ڈی بورڈ کو خراج تحسین پیش کروں گا جنہوںنے دن رات محنت کر کے اس بجٹ کی تیاری کو ممکن بنایا ۔