اسلام آباد(رپورٹنگ آن لائن )بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل نے اپوزیشن اتحاد کے قیام پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں بھی ایسے اتحادوں میں شامل ہو کر ہماری جماعت کو صرف استعمال کیا گیا،ہم نے کوشش کی وفاق اور صوبوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کریں، اس پل کو اڑا دیا گیا۔
ایک انٹرویو میں ااختر مینگل نے کہا کہ اگر اپوزیشن اتحاد بلوچستان کے مسائل کو ترجیح دینے کے لیے سنجیدہ ہوا تو وہ اس میں شامل ہونے پر غور کر سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کی اولین ترجیح ہمیشہ بلوچستان کے عوام کے حقوق اور ان کے مسائل کا حل رہا ہے، اور وہ کسی ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے جو محض سیاسی فائدے کے لیے بنایا جائے۔اسمبلی میں رہتے ہوئے بلوچستان کیلئے آواز اٹھانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 2018 کی جینون اسمبلی کو میری بات سمجھ نہیں آئی تو اس فارم 47 والی حکومت کو میری کہاں سے سمجھ آتی۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں جب میں قومی اسمبلی کا ممبر بنا اور مسائل اٹھائے تو مجھے محسوس ہوا کہ ان اداروں کو میری باتیں ناگوار گزر رہی ہیں، اس کا ذکر اسلام آباد میں جو دوست تھے وہ کرتے رہتے تھے کہ آپ کی تقاریر ان کو پسند نہیں آرہیں۔ پھر جب اسمبلی کی مدت ختم ہونے والی تھی تو مجھے انہی دوستوں نے بتایا کہ آگے آپ کو الیکشن میں آنے نہیں دیا جائے گا۔
جس کا نتیجہ فروری 2024 کے الیکشن میں آیا۔اختر مینگل نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں ان کابینہ کے اراکین، آرمی چیف اور ڈی جی آئی کی موجودگی میں میں نے تذکرہ کیا، میں نے یہ کہا کہ جی مجھے پتا چل رہا ہے آپ لوگ ہمیں سیاست نہیں کرنے دیتے، اگر ایسا ہی آپ کا فیصلہ ہے تو ہمیں کہہ دیں، ہم چپ ہو کے خاموش ہو کے بیٹھ جائیں گے، جس طرح کی آپ لوگ سیاست چاہتے ہیں یا جس طرح کی سیاست ہو رہی ہے اس سے بہتر ہے کہ کوئی پکوڑے کا ٹھیلا آدمی لگا لے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں اسمبلی میں ہماری تقریر کو بلیک آﺅٹ کردیا جاتا تھا، ہمیں کہیں سے وہ ریکارڈنگ مل جاتی تھی تو وہ ہم چلا دیتے تھے، لیکن اب جو نئے اسپیکر آئے ہیں وہ تو اتنے بڑے جنرل بن گئے ہیں کہ انہوں نے وہ ریکارڈنگ بھی بند کردی ہے، اس کیلئے آپ کو اب باقاعدہ ایک ایپلی کیشن دینی پڑے گی۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت میں ہم ایک معاہدے کے تحت شامل تھے، جب وہ اپنے اس معاہدے پر عملدرآمد نہ کر پائے تو یہ ہمارا آئینی، قانونی اور اخلاقی فرض تھا کہ ہم اس کا اتحاد چھوڑ دیتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھے تھے ان پرانے واقعات اور حالات کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے کچھ سبق سیکھا ہوگا، لیکن انہوں نے اپنے اعمال اور حرکتوں سے ہمیں غلط ثابت کیا کہ یہ پیپلز پارٹی وہی پیپلز پارٹی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تھی اور پی ایم ایل این وہی پی ایم ایل این ہے جس نے ضیا الحق کی گود میں جنم لیا تھا۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں کئی اتحاد بنے اور ہم اس میں استعمال ہوتے رہے ہیں، مجھے اب جب تک کلئیر اور واضح یقین دہانی ملتی ہے کہ بلوچستان اور بلوچستان کے مسائل نئے اتحاد کی سب سے بڑی ترجیح ہوں گے تو میں اس میں متحرک کردار ادا کرسکتا ہوں، ورنہ میں آپ لوگوں کیلئے دعا ہی کرسکتا ہوں۔
انہوں نے کہا ہمارے لوگوں کو زبانی یقین دہانیاں تو کرائی جا رہی ہیں، لیکن ہمارے سیاستدانوں کی ایک زبان ہوتی تو میں یقین کرتا، ان کی کئی زبانیں ہیں۔اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کیلئے ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا، جب نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کیا گیا، کیا اس پر آفیشلی کسی نے آج تک معافی مانگی؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ مسائل کو حل کرنے کیلئے ہتھوڑے کا استعمال کیا گیا، جب آپ ہتھوڑے کا استعمال کریں گے تو نقصان تو ہوگا، دراڑیں تو پڑیں گی۔سربراہ بی این پی نے کہا کہ بلوچستان کو اس ملک کی کالونی نہ سمجھا جائے، آپ کو بھروسہ بنانے کیلئے اقدامات اٹھانے پڑیں گے، معافی کے ساتھ ساتھ آپ کو زندہ لاپتہ افراد کی بازیابی کرنی ہوگی اور اگر زندہ نہیں تو ان کے لواحقین کو بتانا ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر(لاپتہ ) لوگ افغانستان گئے ہیں یا ملیٹینٹس کے ساتھ ہیں تو یہ ہزاروں کی تعداد میں خواتین اپنا گھر بار چھوڑ کر سڑکوں پر کیوں آرہی ہیں؟ ہمارا یہاں تو خواتین ووٹ کیلئے بھی باہر نہیں نکلتیں۔ایک سوال کے جواب میں اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ہمارا علاقہ ایک بیک ورڈ قسم کا علاقہ ہے، کچھ نوجوان یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرکے آگے گئے ہیں، لیکن جب اس طرح حالات اور واقعات ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی تعلیم، سوچ اور انسانیت کو بھی بھول جاتے ہیں، یہ ایک ردعمل ہے، میں اس کو جسٹیفائی نہیں کر رہا لیکن یہ انسان کی ایک فطرت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کوشش کی وفاق اور صوبوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کریں، اس پل کا اڑا دیا گیا، مجھے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا کہ میں کس کو سمجھاں، کسی کو سمجھانا بھی اب وقت کا ضیاع ہے، جو 74 سالوں میں نہ سمجھ سکے مجھ جیسا جاہل اور بیوقوف ان کو کیا سمجھا سکے گا۔