اپوائنٹمنٹ مینجمنٹ سسٹم

اپوائنٹمنٹ مینجمنٹ کیس:سیکریٹری و ڈی جی ایکسائز ذاتی حیثیت میں پیش، عدالت نے 30 جولائی کو دوبارہ طلب کر لیا

شہباز اکمل جندران۔۔۔۔

لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج مسٹر جسٹس محمد امیر بھٹی نے صوبائی سیکرٹری کو آئیندہ تاریخ پیشی پر اپوائنمنٹ مینجمنٹ سسٹم میں ترامیم پر مشتمل تحریری جواب پیش کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔

عدالت نے شہری تنویر سرور کی ایڈووکیٹ شہباز اکمل جندران کے توسط سےدائر رٹ پر سماعت کی۔اس موقع پر صوبائی سیکرٹری ایکسائز ڈیپارٹمنٹ وجیہ اللہ کندی۔ڈائریکٹر جنرل ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب مسعود الحق اور ڈائریکٹر موٹرز لاہور قمر الحسن سجاد کمرہ عدالت میں موجود تھے

عدالت نے ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے صوبائی افسروں کو ہدایات جاری کیں کہ عوام کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی بجائے انہیں سہولت دی جائے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ موجودہ اپوائنمنٹ مینجمنٹ سسٹم غیر تعلیم یافتہ افراد کے لئے رکاوٹ ہے۔جس میں اینڈرائیڈ موبائل فون کی موجودگی ضروری ہے۔

پٹیشن میں درخواست گزار کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایکسائزٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے صوبے میں کووڈ 19کے پھیلاو کو مد نظر رکھتے ہوئے 3جون 2020سے اپوائنمنٹ مینجمنٹ سسٹم نافذ کررکھا ہے۔جس کے تحت شہری اپنی گاڑی کی رجسٹریشن کے لیے اپنے موبائل فون میں اپوائنمنٹ مینجمنٹ سسٹم کی ایپ ڈاون لوڈ کرنے پر مجبور ہیں۔

درخواست گزار کے مطابق اینڈرائیڈ ڈیوائس کے بغیر اپوائنٹمنٹ مینجمنٹ سسٹم کی اپلیکیشن موبائل فون میں ڈاون لوڈ نہیں ہوسکتی۔اور سائل کے پاس اینڈرائیڈ موبائل فون نہ ہے اور نہ ہی سمارٹ فون خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ایسے میں سائل کو سمارٹ فون خریدنے پر مجبور کرنا سراسر زیادتی ہے۔

درخواست میں بیان کیا گیا کہ 2017کی مردم شماری کے مطابق صوبہ پنجاب کی کل آبادی 11کروڑ سے زائد ہے۔جس میں سے 65فیصد سے زائد آبادی موبائل فون استعمال کرتی ہے۔البتہ سمارٹ فون رکھنے والے افراد کی شرح مجموعی آبادی کا 50فیصد سے بھی کم ہے۔ایسے میں ہر شہری کو گاڑی کی ٹرانزکشن سے قبل سمارٹ فون خریدنے پر مجبور کرنا خلاف آئین و قانون ہے۔

درخواست گزار کے مطابق صوبے کی مجموعی آبادی11کروڑ کا 38فیصد (4کروڑ 18لاکھ سے زائد)افراد ناخواندہ یا ان پڑھ ہیں جو موبائل فون پر ایپ ڈاون لوڈ کرسکتے ہیں۔نہ ہی سمارٹ فون کے ذریعے اپنے اور گاڑی کے کوائف ،شناختی کارڈ نمبر ، گاڑی کا نمبر ،موبائل فون نمبر اور دیگر معلومات کا اندراج کرکے اپوائنٹمنٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ان پڑھ یا ناخواندہ شہریوں سے تعلیم کی بنیاد پر پر امتیازی سلوک کرنا اورانہیں پڑھے لکھے شہریوں سے کمتر گرداننا آئین کے آرٹیکل 25کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست گزار کا موقف تھا کہ لاہور سمیت صوبے کے متعدد شہروںمیں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کے حوالے سے
LOW NETWORK COVERAGE AREASپائے جاتے ہیں۔جہاں ایپ ڈاون لوڈ کرنے میں صارفین کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسے میں ایپ کو ڈاون لوڈ کرکے سلاٹ بک کروانا انتہائی مشکل امر زیادتی ہے۔

اورآئین کے آرٹیکل 25کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ایسے میں کچھ شہریوں کو خلاف آئین دوسروں پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔

اور آئین کے آرٹیکل 18کے تحت ہر شہری کو قانونی حدود و قیود میں رہتے ہوئے کاروبار کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے ایسے میں کسی شہری کو سمارٹ فون کی عدم دستیابی یاناخواندگی کی بنا پر کاروبار کرنے یا گاڑی خریدنے اور بیچنے سے نہیں روکا جاسکتا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ دی پراونشل موٹر وہیکلز آرڈیننس1965کے سیکشن 23کے تحت رجسٹریشن کے بغیر گاڑی چلانا جرم ہے۔ایسے میں گاڑی کی رجسٹریشن کے لیے دفتر حاضر ہونے والے شخص کو اپوائنممنٹ کے بغیر انٹرنین نہ کرنا قانون ہذا کی خلاف ورزی ہے۔

جبکہ دی پراونشل موٹر وہیکلزآرڈیننس1965کے سیکشن24کے تحت ہر شخص اپنی گاڑی کی رجسٹریشن کروانے کا پابند ہے ایسے میں اپوائنٹمنٹ کو بنیاد بنا کر کسی شخص کی گاڑی کو رجسٹرڈ نہ کرنا قانون ہذا کی خلاف ورزی ہے۔

دوسری طرف اپوائنمنٹ مینجمنٹ سسٹم کے تحت شہریوں کو کئی کئی ہفتے بعد کی سلاٹ ملتی ہے۔یہ نظام آئین اور یہ کہ موٹر وہیکل آرڈیننس1965سے متصادم ہے۔

یہ کہ The Punjab Infectious Diseases(Prevention & Control) ordinance 2020کے تحت کورونا وائرس کے پیش نظر سمارٹ لاک ڈاون یا کسی جگہ یا مقام یا سرکاری دفتر میں عوام الناس کے داخلے پر پابندی عائد کرنے کا اختیارصوبائی سیکرٹری پرائمری و سیکنڈری ہیلتھ یا ڈپٹی کمشنر کے پاس ہے نہ کے رسپانڈنٹ کے پاس۔

درخواست گزار کاکہنا تھا کہ زندگی اور موت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔اپوائنمنٹ مینجمنٹ سسٹم کے تحت کئی کئی ہفتوں تک سلاٹ نہ ملنے کی وجہ سے گاڑی بیچنے اور خریدنے والے دونوں ہی بروقت ٹرانزکشن نہ ہونے کے باعث ذہنی کرب کا شکار ہورہے ہیں۔اور اپوائنمنٹ مینجمنٹ سسٹم کے نفاذ کے باوجود اپوائنٹمنٹ نہ رکھنے والے افراد کی گاڑیوں کی روزانہ کی بنیاد پر رجسٹریشن اور ٹرانزکشن کرکے خود اس سسٹم پر سوالیہ نشان ثبت کردیا گیا ہے۔

درخواست گزار کا موقف تھا کہ 3جون 2020سے اپوائنمنٹ مینجمنٹ سسٹم کے نفاذ سے لیکر18جولائی تک لاہور سمیت دیگر شہروں میںایک ہزار سے زائد گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ٹرانزکشن اپوائنمنٹ سے ہٹ کر کی گئی ہے۔ رسپانڈنٹس کا یہ عمل نہ صرف دوہری پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔بلکہ شہریوں کے مساوی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔

دوسری طرف محکمے نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ ٹریڈ میں واقع سب آفس میں اپوائنمنٹ مینجمنٹ سسٹم کے بغیر گاڑیوں کی رجسٹریشن و ٹرانزکشن وغیرہ کی سہولت فراہم کررکھی ہے۔رسپانڈنٹس کا یہ عمل خلاف آئین اور آرٹیکل 25کی خلاف ورزی ہے اور رسپانڈنٹس اپنے عمل سے صوبے کے شہریوںکودولت ،سماجی رتبے اورخواندگی کی بنیاد پر طبقات میں تقسیم کررہے ہیں۔جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گاڑیوں کی رجسٹریشن، ڈپلیکیٹ دستاویزات کی تیاری، ٹوکن ٹیکس کی ادائیگی اورملکیت کی تبدیلی سے صوبائی حکومت کو سالانہ16ارب روپے سے زائدکا ریونیو جنریٹ ہوتاہے۔جبکہ وفاقی و صوبائی حکومت ٹیکس او رریونیو دینے والے شہریوں کو ٹیکس و ریونیو کی ادائیگی میں سہولت دینا حکومت کا فرض ہوتا ہے۔

عدالت نے درخواست گزار کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے محکمے کے سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل کو 23 ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے