انسانی نعشوں

انسانی نعشوں کے غلط استعمال کا معاملہ۔ہائیکورٹ میں سیکرٹری صحت پنجاب کی سرزنش

شہباز اکمل جندران۔۔۔

لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس شجاعت علی خان کی عدالت میں انسانی نعشوں کی بے حرمتی کے خلاف رٹ پٹیشن کی سماعت ہوئی۔

پٹیشن ایڈووکیٹ شہباز اکمل جندران نے ایڈووکیٹ ندیم سرور کے توسط سےفائل کی۔
 ایڈووکیٹ شہباز اکمل جندران
عدالت میں صوبائی سیکرٹری صحت بیرسٹر نبیل ظفر اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ اناٹومی کی سربراہ پروفیسر رافعہ تفویض اور شعبہ فرنزک کے پروفیسر عارف رشیدبھی پیش ہوئے۔
انسانی نعشوں
عدالت کے روبرو سیکرٹری صحت نے بتایا کہ میڈیکل انسٹیٹیوشنز کو تعلیمی مقاصد کے لئے انسانی نعشیں پولیس فراہم کرتی ہے۔لیکن لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ وہ نعشیں فراہم نہیں کرتی اور نہ ہی ایسا کوئی قانون موجود ہے۔
انسانی نعشوں
عدالت کے روبرو کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ اناٹومی کی سربراہ نے بتایا کہ انہیں پولیس انسانی نعشیں فراہم کرتی تھی تاہم گزشتہ دو برسوں سے کوئی ایک بھی نعش فراہم نہیں کی گئی۔
انسانی نعشوں
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی نے چار پرائیویٹ میڈیکل کالجز کو بھی انسانی نعشیں فراہم کی ہیں۔اس پرعدالت نے صوبائی سیکرٹری صحت سے استفسار کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی خود سے کسی کالج کو نعشیں کیسے فراہم کر سکتی ہے۔
انسانی نعشوں
اس پر بیرسٹر نبیل ظفر سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ یہ ایڈمنسٹریٹو معاملہ ہے۔اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ انسانی نعشوں کی پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو فراہمی ایڈمنسٹریٹو معاملہ کیسے ہوسکتا ہے۔
انسانی نعشوں
بتائیں یہ پنجاب حکومت کا موقف ہے۔اس پر بیرسٹر نبیل ظفر نے بتایا کہ نہیں یہ میرا ذاتی موقف ہے۔اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو ذاتی حیثیت سے نہیں بطور سیکرٹری طلب کیا گیا ہے۔جس پر بیرسٹر نبیل ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ معاملے کی انکوئری کرواتے ہیں۔
انسانی نعشوں

درخواست گزار نے عدالت کےروبرو موقف اختیار کیا کہ لاہور سمیت صوبے میں انسانی نعشیں بکنے لگیں ہیں۔جبکہ انسانی نعشوں کی سپلائی اور خریدوفروخت میں سرکاری ادارے بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
انسانی نعشوں
درخواست گزار کاکہنا تھا کہ نعشوں کے لین دین میں ملوث سرکاری ادارے ایک دوسرے پر تحریری الزام عائد کرنے لگے ہیں۔

درخواست گزار کے مطابق صوبے میں ایم بی بی ایس کے پہلے اور دوسرے سال کے طلبہ کے لئے انسانی نعشوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ایم بی بی ایس کے طلبہ انسانی نعشوں پر پریکٹیکلز اور تجربات کرتے ہیں۔

اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور کی ایچ او ڈی اناٹومی کا کہنا ہے کہ طلبہ کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کو انسانی نعشوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو کہ پولیس مہیا کرتی ہے اور گزشتہ دو برسوں میں 15 انسانی نعشیں پولیس نے فراہم کی گئی ہیں۔

درخواست گزار کا موقف تھا کہ دو برسوں میں چار نعشیں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو فراہم کی گئی ہیں جبکہ لاہور پولیس نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ انٹومی کینسربراہ کے اس دعوے کو جھٹلاتے ہوئے تحریری طورپر موقف اختیار کیا یے کہ انسانی نعشوں کو میڈیکل کالجوں یا یونیورسیٹیوں کے حوالے کرنے کا قانون نہیں ہے۔اور نہ ہی لاہور پولیس نے گزشتہ دو برسوں کے دوران کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سمیت کسی بھی سرکاری یاپرائیویٹ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کو انسانی نعش فراہم کی ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور کے ایڈمنسٹریٹر کا کہنا ہے کہ پولیس اور مینٹل ہسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ انسانی نعشیں فراہم کرتے ہیں۔

تاہم ایم ایس مینٹل ہسپتال لاہور کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران علامہ اقبال میڈیکل کالج سمیت کسی بھی کالج یا یونیورسٹی کو انسانی نعش فراہم نہیں کی۔

انسانی نعشوں کی فراہمی کے متعلق سرکاری اداروں کے تحریری موقف نے ابہام پیدا کر دیا۔اورانسانی نعشوں کی خریدو فروخت کا گھناؤنا کاروبار صوبے میں چمکنے لگا ہے

جبکہ گھناونے کاروبار میں ملوث افراد ابہام سے فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔اور صوبے میں انسانی نعشوں کا کاروبار عام ہوگیا۔

زرائع کے مطابق صوبے میں پرائیویٹ میڈیکل کالج پانچ لاکھ روپے تک انسانی نعشیں خریدنے لگے۔

اور سب سے زیادہ فروخت لاوارث اور ناقابل شناخت انسانی نعشوں کی ہوتی ہے۔

عدالت عالیہ نے مقدمے کی سماعت 18 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئیندہ سماعت پر صوبائی سیکرٹری صحت ،وائس چانسلر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی اور یونیورسٹی کے شعبہ اناٹومی کے سربراہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے