پینٹاگون

امریکہ کا مشرقِ وسطی میں بڑی تعداد میں فوج موجود رکھنے کا فیصلہ

واشنگٹن (رپورٹنگ آن لائن)امریکی وزارت دفاع (پینٹاگان)کے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا ہے کہ مشرقِ وسطی میں تعینات امریکی افواج میں جلد تبدیلیاں کی جائیں گی۔

اس تبدیلی کا مقصد افرادی قوت اور عسکری سازوسامان میں معمولی کمی لانا ہے، تاہم امریکہ خطے میں اپنی بڑی فوجی موجودگی برقرار رکھے گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق عہدیدار نے مزید بتایا کہ اگرچہ فی الحال کسی مخصوص اقدام کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا مگر اس حوالے سے وزارتِ دفاع کے اعلی سطحی فیصلوں کا انتظار ہے تاکہ کسی بھی فوجی نقل و حرکت کے دوران سکیورٹی خدشات نہ پیدا ہوں۔ ذرائع کے مطابق امریکی بحریہ نے مشرقی بحیر روم سیطیارہ بردار جنگی جہاز سولیفان کو واپس بلالیا ہے اور بحرِ ہند میں واقع ڈییگو گارسیا فوجی اڈے سے بھاری طیاروں کی تعداد میں معمولی کمی کی جا رہی ہے۔

یہ کمی ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں کے خطرے میں کمی کے باعث کی جا رہی ہے۔ مذکورہ جنگی بیڑہ دفاعی آپریشنز میں معاون تھا، جبکہ بی 52 بمبار طیاروں کو خطے میں تعینات کرنا اتحادیوں کے لیے اطمینان اور دشمنوں کے لیے وارننگ کا پیغام تھا۔ ایران اور حوثیوں پر حالیہ حملوں کے بعد امریکی حکمت عملی میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ امریکی طیارہ بردار بحری جہاز کارل وِنسن جلد ہی مشرقِ وسطی سے نکل جائے گا۔ امریکی عہدیدار کے مطابق، ہم جلد ہی ان بحری جہازوں کو بحیر احمر اور نہرِ سویز سے گزرتے دیکھیں گے۔

اس کے باوجود، پینٹاگان کی پالیسی یہ ہے کہ مرکزی کمان کے دائرہ کار میں ایک طیارہ بردار جہاز اس کے ہمراہ جنگی بحری جہاز، آبدوزیں اور دیگر یونٹس بدستور تعینات رہیں گے۔ امریکہ خلیج عرب، بحیر احمر اور مشرقی بحیر روم میں بحری اور فضائی قوت برقرار رکھے گا۔امریکی عہدیدار کے مطابق اس وقت خطے میں تقریبا 30 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں، جن میں سے 1500 شام میں ہیں۔ ان کی تعداد کم ہونے کا امکان ہے، مگر سکیورٹی وجوہات کی بنا پر تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔ آئندہ دنوں میں شام میں تعینات امریکی فوجی ایک ہزار سے بھی کم رہ جائیں گے۔

اسی طرح عراق میں بھی 2500 امریکی فوجی موجود ہیں، جن کے انخلا کا آغاز جلد متوقع ہے۔ بغداد اور واشنگٹن کے درمیان معاہدے کے تحت ستمبر کے اختتام سے قبل بڑی امریکی افواج وہاں سے واپس چلی جائیں گی، تاہم کردستان میں محدود فوجی موجودگی ایک سال تک برقرار رہے گی۔پینٹاگان میں یہ بحث جاری ہے کہ مشرقِ وسطی میں امریکہ کو کتنی عسکری قوت کی ضرورت ہے۔ حالیہ برسوں میں خطے میں افواج کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی ہے.

جبکہ پہلے طیارہ بردار جہاز یا میزائل دفاعی نظام کی ایسی مستقل تعیناتی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ایک امریکی اہلکار کے مطابق خطے میں امریکہ کے پاس وسیع دفاعی اور عسکری صلاحیت موجود ہے، جو خطرات سے نمٹنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کافی ہے۔ ایک اور عہدیدار نے کہاکہ مرکزی کمان کے تحت کم از کم ایک طیارہ بردار جہاز کی تعیناتی برقرار رہے گی۔امریکی حکام کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں فوری خطرہ تو نہیں، تاہم وہ مشرقِ وسطی جیسے غیر متوقع خطے کو مکمل طور پر خالی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ایک اہلکار نے کہاکہ یہ خطہ حیران کن صورتحال سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کسی وقت بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگرچہ دنیا بھر میں امریکی افواج کی تعداد کم کرنے اور چین پر توجہ مرکوز کرنے کے حامی ہیں، تاہم مشرقِ وسطی کی حقیقتیں اس سے مختلف تقاضے کرتی ہیں۔امریکی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل مائیکل ایریک کوریللا کی حکمتِ عملی، جس کے تحت ایران کے ایٹمی تنصیبات پر بی 2 بمبار طیاروں سے حملے اور حوثیوں پر محدود مگر شدید بمباری کی گئی وقتی طور پر کارآمد رہی، مگر اب نظر آ رہا ہے کہ یہ پائیدار حل نہیں ہے۔