ڈونلڈ ٹرمپ

امریکہ کا اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں ایرانیوں کی شرکت پر پابندیاں لگانے پر غور

واشنگٹن (رپورٹنگ آن لائن)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پہلے ہی فلسطینی صدر محمود عباس اور ان کے بڑے وفد کو اس ماہ اقوامِ متحدہ کے ایک اعلی سطحی اجلاس میں شرکت کے لیے ویزے جاری کرنے سے انکار کر چکی ہے۔

امریکہ اب کئی دیگر وفود پر مزید پابندیاں لگانے پر غور کر رہا ہے، جو ان کی نیویارک شہر سے باہر سفر کرنے کی صلاحیت کو سختی سے محدود کر دیں گی۔امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک داخلی یادداشت کے مطابق، ایران، سوڈان، زمبابوے اور حیران کن طور پر برازیل کے وفود پر بھی ممکنہ سفری پابندیاں اور دیگر قدغنیں لگائی جا سکتی ہیں۔ یہ سب کچھ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلی سطحی اجلاس کے موقع پر زیرِ غور ہے جو 22 ستمبر سے شروع ہو رہا ہے۔

اگرچہ یہ ممکنہ پابندیاں ابھی زیر غور ہیں اور حالات بدل بھی سکتے ہیں، تاہم یہ تجاویز ٹرمپ انتظامیہ کی ویزا پالیسی سخت کرنے کی ایک اور کڑی ہوں گی۔ اس میں ان افراد کی وسیع پیمانے پر جانچ پڑتال بھی شامل ہے جن کے پاس پہلے سے امریکہ میں داخلے کے قانونی اجازت نامے موجود ہیں یا جو اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے لیے ملک میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ایرانی سفارت کاروں کی نیویارک میں نقل و حرکت پر پہلے ہی سخت پابندیاں عائد ہیں، تاہم زیرِ غور تجاویز میں سے ایک کے مطابق انھیں بڑے ہول سیلر اسٹورز جیسے کوسکو اور سامز کلب میں خریداری کے لیے وزارتِ خارجہ کی پیشگی اجازت درکار ہو گی۔

یہ اسٹورز طویل عرصے سے نیویارک میں مقیم یا دورے پر آئے ایرانی سفارت کاروں کی پسندیدہ جگہ رہی ہیں۔ اس لیے کہ وہ یہاں سے بڑی مقدار میں نسبتا سستی اشیا خرید کر ایران بھیج سکتے ہیں، جہاں اقتصادی پابندیوں کے باعث یہ مصنوعات دستیاب نہیں ہوتیں۔تا حال یہ واضح نہیں کہ ایران پر یہ مجوزہ خریداری پابندی کب نافذ ہو گی یا آیا نافذ ہو گی یا نہیں۔ تاہم یادداشت میں یہ بھی ذکر ہے کہ وزارتِ خارجہ ایسے قواعد پر غور کر رہی ہے جن کے ذریعے امریکہ میں تمام غیر ملکی سفارت کاروں کی ہول سیل کلبوں کی رکنیت پر شرائط و ضوابط عائد کیے جا سکیں۔

برازیل کے معاملے میں یہ بھی غیر واضح ہے کہ ممکنہ ویزا پابندیاں صدر لوئیس ایناسیو لولا دا سلوا پر لاگو ہوں گی یا صرف وفد کے کم رتبے کے ارکان پر۔ روایت کے مطابق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے افتتاحی دن برازیل کا صدر سب سے پہلے خطاب کرتا ہے اور امریکہ کا صدر اس کے بعد خطاب کرتا ہے۔ لولا اس وقت ٹرمپ کی تنقید کا ہدف ہیں کیونکہ ان کی حکومت نے ٹرمپ کے قریبی دوست اور سابق برازیلی صدر جائر بولسونارو پر بغاوت کی کوشش کی قیادت کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا ہے۔

ایک ملک جس پر نسبتا نرم رویہ رکھا گیا ہے وہ شام ہے، کیونکہ اس کے وفد کو ان سفری پابندیوں سے استثنا حاصل ہے جو اقوامِ متحدہ کے اجلاسوں کے دوران ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے عائد رہی ہیں۔اگرچہ سوڈان اور زمبابوے کو بھی ممکنہ اہداف کے طور پر یادداشت میں ذکر کیا گیا ہے، تاہم ان پر عائد کی جانے والی ممکنہ پابندیوں کی نوعیت واضح نہیں کی گئی۔ وزارتِ خارجہ کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔