اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق محمد نوازشریف22 ستمبر تک عدالت پیش نہ ہوئے تو مفرور قرار دینے کی کارروائی شروع کی جائے گی ۔ عدالت نے یہ بھی فیصلہ دیا کہ نوازشریف اپنے نمائندے کے ذریعے بھی کیس کی پیروی نہیں کر سکتے۔ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی حاضری سے استثنٰی کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کی۔
نوازشریف کی طرف سے خواجہ حارث نے کیس کی پیروی کی جبکہ نیب کی طرف سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے ۔محمد نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اثاثوں کی چھان بین سے متعلق کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی درخواست پر پرویز مشرف کے وکیل کو پیش ہونے کی اجازت دی گئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر معمولی حالات میں وکیل کو پیش ہونے کی اجازت دی جا سکتی ہے ۔خواجہ حارث نے کہا کہ سنگین غداری کیس میں بھی پرویز مشرف کے اشتہاری ہونے کے باوجود ٹرائل چلایا گیا ۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے دئیے گئے حوالے یہاں قابل قبول ہیں؟یہاں تو ہم ایک کریمنل کیس سن رہے ہیں جس میں آپ استثنیٰ مانگ رہے ہیں ۔خواجہ حارث نے کہا کہ میں العزیزیہ کیس میں استثنیٰ نہیں مانگ رہا ہوں سوال تھا کہ کیا مشرف اشتہاری ہوتے ہوئے کوئی درخواست دائر کر سکتا ہے یہاں تو ہماری درخواست بھی پہلے سے دائراوروکیل بھی پہلے موجود ہے ۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک کیس میں تو اشتہاری ہوتے ہوئے بھی مختلف وجوہات کی بنا پر پرویزمشرف کی درخواست کو سنا محمد نواز شریف کا کیس بھی اس سے ملتا جلتا ہے ۔
خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف نے بھی سزا کے بعد جیل میں قید کاٹی اور اپیل دائر کی ۔ فاضل جسٹس محسن اختر کیانی نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ نے جس کیس کا حوالہ دیا اس میں تو ملزم جیل توڑ کر مفرور ہوا تھا خواجہ حارث نے کہا کہ یہ تو زیادہ سنگین جرم تھا جس میں مفرور ملزم کی اپیل کا میرٹ پر فیصلہ کیا گیا ، عدالت نے کہا کہ جہاں نیب لا خاموش ہو وہاں ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہوتا ہے ۔
خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے استدعاکی کہ نواز شریف فی الحال عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ حیات بخش کیس کا سٹیٹس کیا ہے جس پر خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ حیات بخش سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1981 کا کیس ہے اس کیس میں سپریم کورٹ نے اشتہاری شخص کے لیے طریقہ کار وضع کیا ہے قانون کے مطابق سنگین غداری کیس بھی زیرالتواء نہیں رکھی جا سکتا ۔
خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ عدالت نے نواز شریف کو سرینڈر کرنے کا حکم دیا نواز شریف کی جانب سے دائر درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت ختم ہو چکی ہے جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نواز شریف عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے جس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے عدالت کو بتایا کہ نیب آرڈی نینس کے تحت مفرور ملزم کو تین سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے ۔
عدالت نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نواز شریف عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے قانون کا بھگوڑا کسی بھی قسم کی رعایت کا مستحق نہیں۔ عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کیس کی سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کر دی۔