میاں زاہد حسین

اقتصادی اصلاحات کے لئے اٹھائے گئے اقدامات ناکافی ہیں،میاں زاہد حسین

کرچی (رپورٹنگ آن لائن)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اب تک اقتصادی اصلاحات کے لئے اٹھائے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔ حالیہ اقدامات سے عوام پربوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے اوران میں مذید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رہی ہے۔عوام پرمذید بوجھ لادنے کے بجائے امراء کوہدف بنایا جائے ٹیکس نظام کومتوازن کیا جائے زرعی آمدنی پرٹیکس عائد کیا جائے، ناکام سرکاری ادارے جو سالانہ چھ سو ارب روپے قومی خزانے سے چوستے ہیں ان کو پرائیویٹائز کیا جائے، بجلی، گیس چوری اور ان کے لائن لاسز جن کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ 700 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے کو ختم کیا جائے اورصنعت پر ٹیکس کم کیا جائے ان اقدامات سے حکومتی اخراجات کم ہوں گے اور کاروباری لاگت کم ہوگی جس سے صنعتی عمل تیزہوگا، معیشت ترقی کرے گی عوام کوروزگارملے گا اورحکومت کومحاصل کی مد میں اربوں روپے کی آمدنی ہوگی جس سے عوام کوریلیف دیا جاسکے گا۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کئی دہائیوں سے حکومتوں کی ترجیحات غلط ہیں جسکی وجہ سے اب سود کی ادائیگی پرحکومت کوریونیو کا اکہترفیصد خرچ کرنا پڑرہاہے جبکہ عالمی منڈی کے حالات، مقامی سیاسی تناؤ اوروسائل کے بے دریغ استعمال نے روپے پر سے اعتماد ختم کردیا ہے جس سے اسکی قدرمسلسل کم ہورہی ہے جسکے نتیجہ میں مذید مہنگائی اوربے چینی پھیل رہی ہے جبکہ تیزی سے بدلتی صورتحال میں حکومتی رسپانس ناکافی ہے جس سے اقتصادی مشکلات کم نہیں ہورہیں بلکہ بڑھ رہی ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت عوام کوریلیف دینے کے لئے اپنی آمدنی بڑھائے اوراخراجات کم کرے کیونکہ یہ واحد آپشن ہے۔ اشرافیہ کوتقریباً تین ہزارارب روپے کا سالانہ ریلیف دینے کا سلسلہ بند کیا جائے جبکہ غریبوں کوایک تہائی حصہ بھی دے دیا جائے تولاکھوں افراد کی مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔ اس وقت حکومت ٹیکس کے تحت وصول ہونے والے ہرایک سوروپے کے بدلے کرنٹ اخراجات پر دوسوروپے لگا رہی ہے۔ ہرایک سوڈالرکی برآمد کے مقابلہ میں دوسوبیس ڈالرکی درآمدات کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے قرضہ مسلسل بڑھ کرچارکھرب روپے تک پہنچ چکا ہے جواب ملک کودیوالیہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ متعدد ترقی یافتہ ممالک میں حکومت کی ملکیت میں موجود کاروں کی تعداد ایک سوسے کم ہوتی ہے اورکسی افسرکوذاتی استعمال کے لئے کارنہیں دی جاتی مگرپاکستان میں ایسی کاروں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے جن میں سے بہت سی گاڑیوں کی مالیت کروڑوں میں ہے۔ پاکستان میں سترہ گریڈ کے ضلعی ٹیکس اورپولیس افسران وغیرہ جوگاڑیاں استعمال کرتے ہیں وہ بھارت میں وفاقی وزراء کو بھی نہیں دی جاتیں۔

میاں زاہد حسین مذید نے کہا کہ حالات مخدوش ہوتے جا رہے ہیں مگربعض سیاستدانوں کوملکی معیشت کے بجائے اپنے مستقبل کی فکرکھائے جا رہی ہے اوروہ اقتدارکے لئے ملکی مفادات کومسلسل قربان کررہے ہیں جس سے عدم استحکام بڑھ رہا ہے جومعیشت کی بنیادوں میں بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف ہے۔