کابل(ر پورٹنگ آن لائن)یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے زور دے کر کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ دہشت گردی کے خاتمے میں کامیاب ہوئی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق انہوں نے انٹرویو میں مزید کہا کہ یونین نے افغانستان سے ایک سبق سیکھا ہے۔ وہ یہ کہ جمہوریت کو عسکری طور پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان تجربے سے سب سے نمایاں سبق یہ ہے کہ فوجی حل کوئی حل نہیں ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ افغانستان میں بین الاقوامی مشن ایک جدید ریاست کی تعمیر میں ناکام رہا۔جوزف بوریل نے نشاندہی کی کہ افغانستان میں جنگ 20 سال تک جاری رہی۔ یہ ابتدائی طور پر 11 ستمبر کے خونی حملوں کی وجہ سے جائز تھی۔امریکی انخلا پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں سابقہ امریکی انتظامیہ نے لیا تھا۔
یمن میں جاری تنازع کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یونین حوثیوں کے تمام حربوں اور جنگی ہتھکنڈوں ں سے آگاہ ہے اور اس کی مذمت کرتی ہے لیکن بحران کے حل کے لیے ان سے بات کر رہی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یمن میں یورپی توجہ انسانی بحران پر کم کرنے پر مرکوز ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ آیا پابندیاں لگانا یمن میں ملیشیائوں کو روک سکتا ہے؟ بوریل نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ یورپ کی پابندیوں سے حوثیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔جہاں تک ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کا تعلق ہے تو ان کے خیال میں مذاکرات ہی تہران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کا واحد راستہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ میں ایرانی جوہری معاہدے پر ویانا مذاکرات کی ناکامی کا تصور نہیں کرتا۔اپنے انٹرویو میں بوریل نے لیبیا کے معاملے پر بھی بات کی۔
انہوں نے کہا کہ لیبیا میں سیاسی عمل کمزور ہے لیکن یہ کام کر رہا ہے اور ہمیں اس کی حمایت کرنی چاہیے۔انہوں نے زور دیا کہ بین الاقوامی اور یورپی برادری لیبیا کے انتخابات کے انعقاد میں درپیش مشکلات کو سمجھتی ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی توجہ دلائی کہ مشکلات کے باوجود ملک کے حالات اب ایک سال پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔جوزف بوریل نے کہا کہ لبنان میں یورپی یونین کا کوئی پوشیدہ ایجنڈا نہیں ہے ، بلکہ وہ لبنانی عوام کی مدد کے لیے کام کرتی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ یورپ نے لبنان کو بہت زیادہ رقم فراہم کی ہے۔