خواجہ آصف

افغانستان سے سیز فائر کیلئے وقت کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی، خواجہ محمد آصف

اسلام آباد(رپورٹنگ آن لائن)پاک افغان سیز فائر دورانیہ سے متعلق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ افغانستان سے سیز فائر کیلئے وقت کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ بہت واضح طور پر بیان کیا گیا تھا کہ کوئی دراندازی نہیں ہو گی، ٹی ٹی پی کو ان کی سرزمین پر کوئی سہولت فراہم نہیں کی جائے گی۔وزیر دفاع نے کہا کہ ہم بار بار یہ بات دہراتے رہے اور ظاہر ہے کہ افغانستان اس بات سے انکار کرتا ہے۔ ترکیہ اور قطر نے زور دیا کہ بنیادی تنازع یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین یا سرپرستی ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کارروائی کیلئے دستیاب ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان کو بتایا کہ سب کچھ صرف ایک شق پر منحصر ہے، کوئی وقت مقرر نہیں تھا کہ ہم فلاں تاریخ تک دیکھیں گے اور پھر سیز فائر معاہدے کی توسیع کریں گے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ جب تک نافذ العمل معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہمارے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ موجود ہے۔ادھر ایک ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں، ٹی ٹی پی سے کوئی بات نہیں ہوگی۔خواجہ آصف نے کہا کہ قطر میں ہونے والے مذاکرات تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے نہیں بلکہ افغان طالبان سے ہوئے تھے۔ ٹی ٹی پی پاکستان کے معصوم شہریوں کے قاتل ہیں، ان سے بات چیت کا نہ کوئی ارادہ ہے اور نہ کبھی ایسا کیا گیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاک افغان سمجھوتے پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر استنبول میں مزید بات ہوگی،مذاکرات کے دوران ماحول خوشگوار تھا۔

انہوں نے بتایا کہ قطر و ترکیہ کے حکام نے مذاکرات کے عمل کو شفاف اور قابلِ اعتبار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اگر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو پاکستان برادر ممالک کو اس سے آگاہ کرے گا۔وزیر دفاع نے بتایا کہ استنبول میں مذاکرات 25 سے 27 اکتوبر تک جاری رہ سکتے ہیں۔ا نہوں نے کہا کہ ایک مختصر چار پیراگراف پر مشتمل معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت عمل درآمد کے لیے ایک واضح مکینزم بنایا گیا ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں موجود ہے اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں کہ دہشت گرد افغان سرزمین سے احکامات لیتے ہیں اور شہری آبادی میں چھپے ہوئے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ عمران خان ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں لیکن حکومت کے لیے قاتلوں سے بات چیت کا کوئی جواز نہیں۔