واشنگٹن(رپورٹنگ آن لائن)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اصرار ہے کہ امریکی افواج کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات کے خلاف گزشتہ جون میں شروع کیے گئے حملوں نے تہران کے یورینیم افزودگی کے پروگرام کو ختم کردیا تھا۔ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایرانی جوہری صلاحیتوں میں سے جو کچھ بچا تھا اسے تباہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تاہم امریکی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق خطے کے حکام اور ماہرین اس تصویر کو کم واضح اور اس سے بھی زیادہ خطرناک انداز میں دیکھتے ہیں۔
ماہرین مانتے ہیں کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان اگلا تصادم اب کوئی دور کی بات نہیں بلکہ کچھ وقت کی بات ہے۔2015 کے جوہری معاہدے ، جس نے ایران کی یورینیم کی افزودگی کو محدود کر دیا تھا، کی میعاد ختم ہونے نے صورت حال کو ایک بار پھر خراب کردیا ہے۔ امریکی پابندیاں دوبارہ لگائی گئی ہیں اور جوہری پروگرام پر مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔تہران کا دعوی ہے کہ اس کی زیادہ تر تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا ہے جبکہ اسرائیل کا موقف ہے کہ ایران کے انتہائی افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو خفیہ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران بین الاقوامی معائنہ کاروں تک رسائی سے انکار کرتے ہوئے ایک نئی جگہ پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے جسیایکس مانٹین کہا جاتا ہے۔اس صورت حال میں ایران ایک خطرناک مساوات کے مرکز میں آگیا ہے۔
کوئی مذاکرات نہیں، کوئی نگرانی نہیں اور اس کے جوہری ذخیرے کے حجم کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ یہ مساوات خطے میں خوف کو ہوا دے رہی ہے کہ اسرائیل دوبارہ فوجی طاقت کا سہارا لے سکتا ہے۔اس تناظر میں انٹرنیشنل کرائسز گروپ میں ایران کے پروجیکٹ ڈائریکٹر علی فائزکا کہنا تھا کہ تہران تنازع کے ایک نئے دور کی تیاری کر رہا ہے۔ میزائل فیکٹریاں چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہیں اور پاسداران انقلاب کے کمانڈر بیک وقت 2000 میزائل داغنے کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ اسرائیل کے دفاع کو مغلوب کیا جا سکے۔
گزشتہ جون میں ایسا نہیں ہو سکا تھا۔ اگرچہ فوری طور پر کسی فوری حملے کے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں لیکن خطے کے سکیورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل اپنے مشن کو نامکمل سمجھتا ہے اور جیسے ہی اسے محسوس ہوگا کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی طرف سرخ لکیر عبور کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے تو وہ ایک اور حملہ کر سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق تضاد یہ ہے کہ بڑی عرب طاقتوں نے واشنگٹن اور صدر ٹرمپ کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ مضبوط کر لیا ہے لیکن ساتھ ہی وہ تہران کے ساتھ رابطے کے کھلے ذرائع کو برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
چتھم ہاس میں مشرق وسطی کے پروگرام کے ڈائریکٹر سنام وکیل بتاتے ہیں کہ یہ ممالک نئی جنگ نہیں چاہتے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ایران، اپنی کمزوری کے باوجود، لبنان، عراق، یمن اور خلیج میں پھیلی اپنی ملیشیاں اور پراکسیوں کے ذریعے خطے کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔امریکی تحقیقی مراکز بتاتے ہیں کہ ایران کی یہ قدرے کمزوری نئے سرے سے سفارت کاری کا موقع فراہم کر سکتی ہے ۔
بروکنگز کی سوزان میلونی کہتی ہیں کہ کمزور ایران پر قابو پانا آسان ہے لیکن ساتھ ہی یہ زیادہ خطرناک ہے کیونکہ وہ مایوسی کے عالم میں لاپرواہی سے قدم اٹھا سکتا ہے۔تہران میں ایرانی قیادت اپنے منحرف بیانات سے چمٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ 1979 میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی سالگرہ کے موقع پر سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے اعلان کیا کہ امریکی دشمنی کی جڑیں بہت گہری ہیں اور واشنگٹن ہتھیار ڈالنے سے کم کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا۔ اس پیغام کو وسیع پیمانے پر ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کسی بھی نئے مذاکرات کے دروازے بند کرنے سے تعبیر کیا گیا۔
وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کا ملک واشنگٹن کی طرف سے طے کی گئی ناممکن شرائط کو مسترد کرتا ہے لیکن حملوں اور پابندیوں کے خاتمے اور جنگی نقصانات کے معاوضے کی ضمانت مل جائے تو تہران بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار ہے۔رپورٹ کے مطابق ایران اس وقت دو دھڑوں کے درمیان اندرونی بحث کا شکار ہے۔ ایک گروہ سیاسی تصفیہ اور اقتصادی دبا کو کم کرنے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کی وکالت کرتا ہے۔
دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ کوئی بھی بات چیت وقت کا ضیاع ہے اور اسرائیل کے ساتھ تصادم ناگزیر ہے۔ تاہم دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ تصادم کا اگلا دور ناگزیر ہے اور ایران خطے میں ڈیٹرنس کے توازن کو بحال کرنے کے لیے اس تصادم کو مختلف بنانا چاہتا ہے۔دوسری طرف اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ ایرانی جوہری پروگرام کو نقصان پہنچا ہے لیکن اسے تباہ نہیں کیا گیا اور کوئی بھی نرمی تہران کو دوبارہ تعمیر کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل اگر ضروری ہو تو خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ کی واضح سیاسی حمایت کے ساتھ فوجی فتح حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔