اسلام آباد،سیالکوٹ(رپورٹنگ آن لائن)ترکیہ کی میزبانی میں پاکستان اور طالبان رجیم کے درمیان استنبول میں9 گھنٹے طویل مذاکرات ہوئے ، وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات سے معاملات طے نہیں پاتے تو پھر افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے ۔پاکستان اور افغانستان کے وفود کے درمیان تازہ مذاکرات استنبول کے مقامی ہوٹل میں ہو رہے ہیں ۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات 9 گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہے ،‘ورکنگ ڈنر’ پر بھی بات چیت ہوتی رہی۔ پاکستان نے افغان طالبان رجیم پر زور دیا کہ ٹی ٹی پی کیخلاف ٹھوس اور فیصلہ کن کارروائی کرتے ہوئے عالمی برادری کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کے سامنے جامع مسودہ تجاویز بھی پیش کیا۔ ذرائع کے مطابق استنبول میں جاری مذاکرات میں طالبان کی نمائندگی نائب وزیرداخلہ رحمت اللہ مجیب کی قیادت میں آنے والا اعلیٰ سطح کا وفد کر رہا ہے۔
افغان وفد میں قطر میں افغان سفارت خانے کے قائم مقام سربراہ ، افغان وزیر داخلہ کے بھائی انس حقانی، نور احمد نور، وزارت دفاع کے عہدیدار نور الرحمن نصرت اور افغان حکومت کے وزارت خارجہ کے ترجمان بھی شامل ہیں۔پاکستان کی جانب سے سینئر عسکری، انٹیلی جنس اور وزارتِ خارجہ کے حکام پر مشتمل7 رکنی وفد شریک ہوا جس نے مذاکرات میں تجاویز پیش کیں جن میں افغانستان سے پاکستان میں دہشتگرد حملوں کو روکنے کیلئے مانیٹرنگ کا تیز اور مصدقہ میکنزم تشکیل دینا شامل ہے ۔عالمی نشریاتی ادارے کاکہنا ہے کہ یہ مذاکرات تین دن تک جاری رہ سکتے ہیں۔اس سے قبل پاکستان اور افغانستان نے سرحد پر ایک ہفتے تک جاری شدید اور خونریز جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور میں فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔وزیردفاع خواجہ آصف نے سیالکوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں، جلد نتیجہ سامنے آئے گا، اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو کھلی جنگ ہے ۔
اس سے قبل ہماری جو بھی بات چیت ہوئی، اگر وہ میری خوش فہمی نہ ہو تو وہ لوگ امن چاہتے ہیں اور ہم بھی امن کے خواہشمند ہیں، کن شرائط پر امن ہوگا، کچھ باتیں قطر میں واضح ہوئیں، کچھ اب ہو جائیں گی، اگر مذاکرات میں طے پانے والی شرائط پاکستان کے مفاد میں ہوں تو امن معاہدہ ممکن ہے ،امید ہے معاہدہ ضرور ہوگا۔گزشتہ چار پانچ روز میں سرحدی علاقوں میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی، دہشتگردی کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، قطر میں جو طے پایا تھا اس کا پاس کیا جا رہا ہے ۔وزیر دفاع نے کہا افغانستان کے ساتھ مذاکرات کا عمل دوست ممالک کی وساطت سے کیا جا رہا ہے ، قطر اور ترکیہ بڑے خلوص سے اس عمل میں حصہ ڈال رہے ہیں۔انہوں نے کہا ہم نے 40 سال تک افغانوں کی مہمان نوازی کی، دوحا میں جن سے بات کر رہے تھے وہ سارے پاکستان میں جوان ہوئے ، سمجھ نہیں آتا کہ اتنی مہمان نوازی کے باوجود افغانستان کا ہمارے ساتھ ایسا رویہ کیوں ہے ، افغانستان ہمارے خلاف بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے ۔ جہاں ایک قوم نے آپ کی اتنی مہمان نوازی کی ہو، آپ کا ہمسایہ ہو، ایک مذہب کے ماننے والے ہوں، تو کیا آپ اس قوم کیخلاف بھی دہشت گردی کو سپورٹ کریں گے ؟ اس سے زیادہ دکھ کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
افغانستان کو ایک مناسب تعلق رکھنے کے لیے اور کیا لوازمات چاہئیں؟ ایک ایجنڈا طے ہونا چاہیے ، دونوں ممالک بھائی چارے اور ہمسایہ کی طرح رہیں، ضروری نہیں کہ ہم ایک دوسرے سے بغل گیر ہوں۔انہوں نے کہا افغان مہاجرین نے روزگار اور کاروبار پر قبضہ کیا ہوا ہے ، ہمارا صرف ایک ایجنڈا ہونا چاہیے کہ ہم اخوت کے ساتھ ہمسائے کے ساتھ رہیں، اب جو بھی پاکستان آئے گا ویزے کے ذریعے ہی آئے گا۔اور جو بھی افغان شہری ویزالے کر پاکستان آیا ہے ، اسے واپس جانا ہو گا، ویزا دیا ہے ، مستقل رہائش نہیں۔ اس لیے اب ایک واضح ضابطہ اخلاق اور باہمی احتساب کا میکنزم لازم ہے تاکہ پاکستان اور افغانستان امن و احترام کے ساتھ رہ سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تعلق ذمہ داری اور نظم کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا اور اس ضمن میں متعلقہ اداروں کے ساتھ ہم آہنگی کے ذریعے عملی اقدامات کیے جائیں گے ۔انہوں نے کہا افواج پاکستان دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہیں، ہم ہر دوسرے دن شہدا کے جنازے پڑھتے ہیں، سکیورٹی فورسز کے جوان سرحدوں پر اپنی جانیں قربان کرتے ہیں،ہم اور آپ اس لیے چین سے سوتے ہیں کہ آپ کے محافظ جاگ رہے ہوتے ہیں۔قبائلی علاقوں میں بہادر لوگ رہتے ہیں جو ملکی سرحدوں کی حفاظت کررہے ہیں، شہدا کی وجہ سے ہماری سرحدیں محفوظ ہیں، بھارت کے خلاف ایک جنگ لڑ چکے ہیں، بھارت دوسری پراکسی جنگ افغانوں کے ذریعے لڑ رہا ہے ، افغان بھارتی پراکسی کے طور پر کام کررہے ہیں۔