اسلام آباد(رپورٹنگ آن لائن)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ ڈویژن کو متعلقہ حکام نے آگاہ کیا ہے کہ احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے پہلے مرحلے میں مستحقین میں 180ارب جبکہ دوسرے مرحلے میں اب تک 34ارب سے زائد کی رقوم تقسیم کی جاچکی ہیں جبکہ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ ڈویژن سینیٹر ثانیہ نشتر نے کمیٹی کو بتایا کہ فیصلے میرٹ کی بنیاد پر کرتے ہیں، بلوچستان میں احساس پروگرام کے موبائل یونٹس چلائیں گے ، جس کی تنخواہ31500سے کم ہے وہ احساس راشن رعایت پروگرام کے لئے اہل ہے ۔
رکن کمیٹی سینیٹر کرشنا کماری نے خواتین کے فنگرپرنٹس میچ نہ ہونے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ فنگر پرنٹس کا بڑا مسئلہ آرہا ہے، پہلے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کارڈ میں پیمنٹ آتی تھی تو لوگ جب مرضی جا کر اپنے پیسے نکال لیتے تھے، اب رش میں جاتے ہیں تو کویڈ کابھی خطرہ ہوتا ہے،زراعت کے شعبے میں کام کرنے والی زیادہ تر خواتین کے فنگر پرنٹس کام نہیں کرتے۔جمعہ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ ڈویژن کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر نصیب اللہ بازئی کی صدارت میں ہوا، چیئرمین کمیٹی نے بریفنگ کی کاپی وقت پر ملنے پر برہمی کا اظہار کیا، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سینیٹر مہرتاج روغانی ناراض ہو کر چلی گئیں ہیں،ایجنڈا کم از کم 48 گھنٹے پہلے ہمارے پاس پہنچنا چاہیئے، وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ ڈویژن سینیٹر ثانیہ نشتر نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ آپ کو 48 گھنٹے پہلے ایجنڈا فراہم کر دیں گے۔
اجلاس میں کورونا کے دوران مستحقین میں احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت تقسیم کی گئی رقوم کے معاملے پر بریفنگ دی گئی۔سیکرٹری بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پہلے مرحلے میں 180 ارب روپے تقسیم کر چکے ہیں،پنجاب میں مستحقین میں 80ارب تقسیم کئے گئے ،سندھ میں 55ارب تقسیم کئے گئے ہیں، کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی بریفنگ کے مطابق خیبر پختونخوا میں 30 ارب سے زائد جبکہ بلوچستان میں 8 ارب سے زائد رقوم تقسیم کی گئیں۔ کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی بریفنگ کے مطابق احساس ایمرجنسی کیش کے دوسرے مرحلے مستحقین میں اب تک 34 ارب روپے سے زائد کی رقم تقسیم کی جا چکی ہے ۔چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ آبادی کے حساب سے پیسے دیتے ہیں ؟بلوچستان میں غربت 11فیصد ہے۔ سینیٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ فیصلے میرٹ کی بنیاد پر کرتے ہیں، بلوچستان میں احساس پروگرام کے موبائل یونٹس چلائیں گے ، اسپیشل ٹرکوں میں دفتر چلائیں گے ،
احساس راشن رعایت پروگرام میں سندھ اور بلوچستان کے سوا تمام صوبوں نے حصہ لے لیا ہے، ہمیں سارے ملک سے درخواستیں آرہی ہیں،احساس پروگرام کو فنڈ وزارت خزانہ دیتی ہے ،ہم کسی ڈونر سے کوئی پیسہ نہیں لیتے۔ رکن کمیٹی سینیٹر کرشنا کماری نے کہا کہ فنگر پرنٹس کا بڑا مسئلہ آرہا ہے، پہلے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کارڈ میں پیمنٹ آتی تھی تو لوگ جب مرضی جا کر اپنے پیسے نکال لیتے تھے، اب رش میں جاتے ہیں تو کویڈ کابھی خطرہ ہوتا ہے،زراعت کے شعبے میں کام کرنے والی زیادہ تر خواتین کے فنگر پرنٹس کام نہیں کرتے،سینیٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ جن کی بائیو میٹرک ناکام ہوتی ہے ان کی شکایات آتی ہیں تو ہم بینکوں کی برانچز میں جا کر ان کو پیمنٹ کراتے ہیں، نئے پیمنٹ سسٹم میں اور بہتری آئے گی، آگے سسٹم بہتر ہوگا، سینیٹر کرشنا کماری نے کہا کہ کرپشن تو ابھی بھی ہورہی ہے،
فنگر پرنٹس لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں میچ نہیں ہوا،سینیٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ جس کی تنخواہ31500سے کم ہے وہ احساس راشن رعایت پروگرام کے لئے اہل ہے، سینیٹر کرشنا کماری نے احساس راشن رعایت پروگرام کے ذریعے اشیاءخریدنے کے عمل کو دیہات کے عوام کے لئے مشکل قرار دے دیا، اجلاس کے دوران سینیٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ جب ڈیٹا کا تجزیہ کیا تو بہت سے آدمیوں کی دو بیویاں سامنے آئیں ۔