اسحاق ڈار

آئی ایم ایف پروگرام نہ بھی ہوتا تو پاکستان ڈیفالٹ نہ کرتا،اسحاق ڈار

اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے کہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام نہ بھی ہوتا تو پاکستان ڈیفالٹ نہ کرتا،

پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے بغیر پلان بی موجود تھا،آئی ایم ایف پروگرام میں نہ ہوتے تو نیا ٹیکس نہ لگاتے ،اب مجبوری ہے پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے، ساتویں اور آٹھویں اقتصادی جائزہ کو مکمل کرنے کیلئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں زیادہ بڑھیں۔ جمعہ کو قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں کورونا کے دوران 620 کاروباری افراد کو کم شرح سود پر قرض کا معاملہ زیر بحث آیا ۔

چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ تین ارب ڈالر کا قرض دیا گیا کن افراد کو دیا گیا اس حوالے سے بتایا جائے۔ علی پرویز ملک نے کہاکہ گزشتہ اجلاس میں کچھ نکات پر سٹیٹ بینک حکام سے بریفنگ طلب کی تھی۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ چھ ماہ پہلے کہا گیا تھا کہ ان افراد کے نام دیئے جائیں گے ابھی تک نہیں دیئے گئے۔ گور نر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہاکہ سٹیٹ بینک سے جو معلومات طلب کی گئیں وہ فراہم کی گئی ہیں، قرضہ سکیم کے تحت صرف نئی مشینری امپورٹ کی اجازت دی گئی تھی۔

انہوںنے کہاکہ 787 ارب روپے مشینری کی درآمد کیلئے مختص تھے اور 55 فیصد کی رقم خرچ کی گئی، باقی 45 فیصد رقم سپانسرز کے ذریعے خرچ کی گئی جو ان کی ارینجمنٹ تھی۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ پاکستان میں صرف امیر لوگوں کو قرضہ دیا جاتا ہے، کیا یہ قرض دینے سے پہلے کمیٹی میں معاملہ آیا تھا مجھے تو یاد نہیں ہے۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ بتایا جائے کہ قرضے دینے کے بعد ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا؟ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو قرضے نہیں دیئے جاتے۔ گور نر اسٹیٹ بینک نے کہاکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کیلئے الگ سکیم ہے۔

وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کمیٹی کو بتایا کہ بجٹ جب 9 جون کو پیش کیا گیا تو کہا گیا تھا کہ نیا ٹیکس نہیں لگائیں گے، جب آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کے دوران معاہدے کیلئے نئے ٹیکس لگائے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہاکہ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے کے نکات سے انحراف کیا، جس کی وجہ سے پاکستان کو آئی ایم ایف سمیت کسی ادارے سے قرض نہیں ملا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہاکہ ستمبر کے آخر میں جب میں آیا تو آئی ایم ایف کو نومبر میں بلایا، آئی ایم ایف کے آنے میں تاخیر ہوئی اور 31 جنوری کو آئے۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ سٹاف لیول معاہدہ بھی بروقت نہ ہوسکا جس کی وجہ سے مسائل رہے۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ گزشتہ حکومت نے ساتویں جائزے کی شرائط سے انحراف کیا، مخلوط حکومت نے ساتویں اور آٹھویں جائزے کو اکھٹا کیا۔ انہوںنے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیرونی فنانسنگ کی وجہ سے معاملات تاخیر کا شکار ہوئے، اگر آئی ایم ایف پروگرام نہ بھی ہوتا تو پاکستان ڈیفالٹ نہ کرتا۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے بغیر پلان بی موجود تھا۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ آئی ایم ایف پروگرام میں نہ ہوتے تو نیا ٹیکس نہ لگاتے مگر اب مجبوری ہے پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہاکہ آئی ایم ایف نے کہا کہ 6 ارب ڈالرز تک کا پروگرام مکمل کریں۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر آئی ایم ایف معاہدہ موجود ہے، ٹیبل ٹو میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کسی قسم کی ٹیکس ایمنسٹی نہیں دیگا۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ آئی ایم ایف کو کامیابی سے معاہدے پر راضی کیا، ساتویں اور آٹھویں اقتصادی جائزہ کو مکمل کرنے کیلئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں زیادہ بڑھیں۔ انہوںنے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ پروگرام ایکسٹرنل فنانسنگ پورا نہ ہونے کے باعث ختم ہوا،آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ پروگرام معطل ہونے کے باعث ڈالر ان فلو رکا تھا۔ انہوںنے کہاکہ آئی ایم ایف پروگرام تعطل کا شکار ہونے کے باعث 10 ماہ تک ڈالر نہیں آئے۔