اسلام آباد(رپورٹنگ آن لائن ) وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کچھ لوگ مجھ سے اس لاک ڈاؤن کی توقع کررہے تھے جو نریندر مودی نے کیا، لیکن اللہ کا شکر میں نے اس دباء کی مزاحمت کی اور وہ لاک ڈاؤن نہیں لگایا۔
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ اگر مجھ سے صوبے پوچھ لیتے تو میں کبھی اس طرح کا لاک ڈاؤن نہیں ہونے دیتا کیوں کہ جب لاک ڈاؤن لگائیں تو پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ اس کے معاشرے کے دیگر طبقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔سماجی تحفظ کے پروگرامز احساس اور وزیراعظم کووِڈ ریلیف فنڈ کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 30 سال سے پیسہ اکٹھا کرنے والے فنڈ ریزر کے طور میں یہ کہتا ہوں کہ پاکستانی قوم میں عطیہ کرنے کا جو جذبہ پایا جاتا ہے اسے کوئی بھی اس طرح نہیں سمجھتا جس طرح میں سمجھتا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں نے(شوکت خانم کے لیے)عطیات جمع کرنا شروع کیے تو یہ میرے لیے بھی ایک عجیب تجربہ تھا کیوں کہ میں پاکستان کے سب سے مہنگے اسکول میں یہ سوچ کر گیا کہ وہاں لوگوں سے عطیات اکٹھے کرلوں گا لیکن آخر میں مجھے عطیات عام لوگوں نے ہی دیے۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری قوم میں عطیات دینے کا جذبہ اس لیے زیادہ ہے کہ ان کا اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعظم کووِڈ ریلیف فنڈ کے ساڑھے 4 ارب روپے میں 50 فیصد چھوٹے عطیات ہیں جو عام لوگوں نے دیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 30 سال میں کسی نے اتنا پیسہ اکٹھا نہیں کیا جتنا میں نے کیا اور میرے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ پیسہ وہ افراد دیتے ہیں جن کا اللہ اور آخرت پر ایمان ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ ملک میں کینسر کے علاج کے لیے شوکت خانم بنایا گیا جہاں امیر بیرونِ ملک جائے بغیر اور غریب مفت میں کینسر کا علاج کرواسکیں اور پوری دنیا میں کہیں بھی اس طرح کا کوئی تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے کہ یہ ایک معجزہ ہے کہ کینسر ہسپتال میں کہ جہاں سب سے مہنگا علاج ہے وہاں 75 مریضوں کا ہر سال مفت علاج ہوتا ہے جسے ترقی یافتہ ممالک کے بھی ہسپتال برداشت نہیں کرسکتے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کینسر ہسپتال پاکستانیوں نے ہی بنایا اور وہ ہی اسے چلا رہے ہیں اور 70 کروڑ روپے میں تعمیر ہونے والے ہسپتال کا خسارہ 12 ارب روپے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک دفعہ لوگوں کو یہ اعتماد ہوجائے کہ جو عطیات ہم دے رہے ہیں وہ کرپشن کی نذر ہونے کے بجائے درست طریقے سے استعمال ہورہے تو یہ قوم جتنے کھلے دل سے خیرات دیتی ہے اس طرح شاید ہی دنیا میں کوئی قوم دیتی ہو۔وزیراعظم نے کہا پاکستان کو دنیا کے ان ممالک میں شامل کیا جاتا ہے جہاں سب سے زیادہ عطیات دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب سیلاب اور زلزلے آئے اس وقت بھی قوم نے بڑھ چڑھ کر مدد کی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک جگہ ساری دنیا پہنچ جاتی تھی اور کچھ مقامات پر لوگ امداد سے محروم رہتے تھے مثلا بالاکوٹ میں جب زلزلہ آیا تو 3 میل تک امدادی اشیا لے کر پہنچنے والی گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں لیکن جن علاقوں کا ذکر نہیں ہوا وہاں امداد سے محروم بھوکے لوگ گاڑیاں لوٹ رہے تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو صورتحال سامنے آئی اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی، ہم تو پہلے ہی مشکل معاشی حالات سے گزر رہے تھے لیکن امریکا جیسے ملک میں لوگ طویل قطاریں لگا کر امداد وصول کرتے نظر آئے اسی طرح اٹلی میں بھوک کا شکار افراد کو کھانا فراہم کیا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کو دیکھتے ہوئے ہمارے ملک میں تو مشکلات آنی ہیں تھیں اور اگر مجھ سے صوبے پوچھ لیتے تو میں کبھی اس طرح کا لاک ڈاؤن نہیں ہونے دیتا کیوں کہ جب لاک ڈاؤن لگائیں تو پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ اس کے معاشرے کے دیگر طبقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک آپ یہ نہ سوچیں کہ یومیہ اجرت کمانے والے کس طرح گزارا کریں گے اس وقت تک آپ کو مکمل لاک ڈاؤن نہیں کرنا چاہیئے تھا لیکن ایک دم افراتفری کے عالم میں یورپ کو دیکھتے ہوئے لاک ڈاؤن کردیا حالانکہ وہاں حالات مختلف تھے۔وزیراعظم نے کہا کہ شکر ہے کہ اس کے بعد میری بات سن لی گئی حالانکہ مجھ پر بہت تنقید بھی ہوئی کہ بھارت میں نریندر مودی نے بھی لاک ڈاؤن لگادیا، اس نے وہ لاک ڈاؤن لگایا جس کی توقع لوگ مجھ سے کررہے تھے لیکن اللہ کا شکر میں نے اس دبا کی مزاحمت کی اور وہ لاک ڈاؤن نہیں لگایا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں جو اس وقت غربت پھیلی ہوئی ہے اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگاسکتا اور 34 فیصد عوام شدید غربت کا شکار ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے جو لاک ڈاؤن لگایا اس کے بھی بہر حال اثرات ہوئے ہیں اور ہمارا خدمات کا شعبہ مکمل تباہ ہوگیا ہے ہوٹلز بند، شادی ہال بند کھانے پینے کی جگہیں بند ہوگئیں۔انہوں نے کہا کہ اس لیے ہم نے وزیراعظم کووِڈ ریلیف فنڈ شروع کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اتنے وقت میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو امدادی رقم فراہم کی گئی اس لیے ہم بچ گئے ورنہ ابتدا میں غریب علاقوں میں امداد لے کر جانے والے ٹرکوں کو لوٹا جارہا تھا۔
لاڑکانہ میں احساس ایمرجنسی کیش تقسیم کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ وہاں 20 فیصد چھابڑی والے تھے جو کہ سماجی دوری پر عمل کرسکتے ہیں بلکہ وہ سب سے آسان طریقہ تھا کہ لوگوں تک اشیائے خورونوش پہنچنے کا سلسلہ جاری رہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اسے بھی بند کردیا گیا۔وزیراعظم نے کہا ریلیف فنڈ کا واحد مقصد بے روزگار اور غریب لوگوں کو امدادی رقم فراہم کرنا ہے اور میرا وژن یہ ہے کہ انشااللہ اپنے ملک کو ایسا بنانا ہے کہ جس میں مستحق طبقے کا احساس اور ان کے لیے رحم ہو۔
انہوں نے شہروں میں کام کے لیے آنے والے افراد سخت سردی میں سڑکوں پر سوتے تھے جس کو دیکھتے ہوئے ہم نے پناہ گاہیں قائم کیں تا کہ وہ آرام اور عزت سے ایک جگہ رکیں اور وہاں انہیں نہانے اور کھانے کی سہولیات میسر ہوں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بڑے ہسپتالوں کے باہر بیماروں کے ساتھ آنے والے تیمار دار کو ٹھہرانے کے لیے پناہ گاہیں بنائی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں میں عطیہ کرنے کا جذبہ ہے صرف انہیں بھروسہ اور یقین دلانے کی ضرورت ہے اس لیے ہم احساس پروگرام میں استعمال ہونے والی رقم کی مکمل تفصیلات شائع کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اگلا مہینہ مشکل مہینہ ہے اور جنہیں وائرس سے سب سے زیادہ خطرہ ہے مثلا بیماروں اور بزرگوں کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے اسمارٹ لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا۔
قبل ازیں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے غربت کا خاتمہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے سماجی تحفظ کے حوالے سے شروع کیے گئے 3 اقدامات پر بریفنگ دی جس میں سول سوسائٹی کے لیے سماجی تحفظ کے پروگرام میں شمولیت، ٹائیگر فورس کے لیے ایپ کی لانچ اور پرائم منسٹر کورونا ریلیف فنڈ کی ویب سائٹ کا باضابطہ آغاز شامل تھا۔