احمد ندیم قاسمی

’’کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا۔۔۔۔میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا‘‘

لاہور (رپورٹنگ آن لائن) نامور ادیب ،شاعر ، کالم نویس اورڈرامہ رائٹر احمد ندیم قاسمی کی 14ویں برسی 10جولائی کو منائی جائے گی ۔ احمدندیم قاسمی جن کا اصل نام احمد شاہ تھا اور ندیم ان کا تخلص تھا 20نومبر 1916ء کو پنجاب کے علاقے خوشاب میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی جبکہ 1923ء میں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے۔

وہاں مذہبی، عملی اور شاعرانہ ماحول میسر آیا اور پھر 1931ء میں میٹرک کیا اور بہاولپور کے ایک کالج سے 1935 میں بی اے کیا۔1939میں محکمہ آب کاری میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی ،اسی سال ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ چوپال شائع ہوا تاہم 1942میں ملازمت سے مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے اور یہاں دو جریدوں تہذیبِ نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی۔

1943میں ادب لطیف کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور تقسیمِ ہند سے قبل وہ ریڈیو پشاور میں سکرپٹ رائٹر کے طور پر ملازم ہو گئے۔انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ تیرہ اور چودہ اگست 1947 کی درمیانی شب انہی کا لکھا ہوا اولین قومی نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔قیامِِ پاکستان کے بعد آپ ڈیڑھ سال ریڈیو پشاور میں ملازم رہے، پھر ہاجرہ مسرور سے مل کر نقوش کی ادارت سنبھالی اور امروز سے بھی وابستہ رہے جبکہ اپنی وفات تک وہ مختلف اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے رہے۔

اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے انہوں نے قاسمی کہانی، گھر سے گھر تک سمیت متعدد معروف ڈرامے تحریر کئے۔وہ شاعر، افسانہ نگار، کالم نگار اور صحافی تھے، انہوں نے پچاس سے زائد کتابیں تحریر کیں اور ان کی شاعری کے بارہ مجموعے منظر عام پر آئے۔احمد ندیم قاسمی میں کئی خوبیاں پائی جاتی تھیں، انہوں نے فرد کی ذات کی کیفیات کے ساتھ معاشرتی ناہمواریوں اور مسائل کو بھی اپنا موضوع بنایا۔

احمد ندیم قاسمی نے نہ صرف عوام کے مسائل پر لکھا بلکہ ان کے حل کیلئے عملی جدوجہد بھی کی اور اپنے عوام دوست نظریات کی بنا پر انہیں جیل بھی کاٹنا پڑی۔1962ء میں ان کی ایک مشہور ہونے والی نظم کے چند مصرعے کچھ یوں ہیں۔’’ریت سے بت نہ بنا اے مِرے اچھے فنکار،ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں،میں تیرے سامنے انبار لگا دوں،لیکن کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا‘‘۔

انہیں اردو ادب میں بہترین خدمات کے اعتراف میں 1968 میں تمغہ حسن ِ کاکردگی اور 1980 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔اردو ادب کی یہ ہمہ جہت شخصیت 10جولائی 2006ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی لیکن اپنی تخلیقات کی صورت میں وہ آج بھی زندہ ہیں۔ان کا ایک مشہور شعر آج بھی لب عام ہے ۔’’کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا۔۔۔۔میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا‘‘۔