اس ہفتے دنیا کی نظریں سان فرانسسکو پر مرکوز ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی دعوت پر چینی صدر شی جن پھنگ 14 سے 17 نومبر تک سان فرانسسکو میں چین امریکہ سمٹ اور اپیک رہنماؤں کی 30 ویں غیر رسمی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ فریقین چین امریکہ تعلقات میں اسٹریٹجک، مجموعی امور اور سمت کے ساتھ ساتھ عالمی امن و ترقی سے متعلق اہم امور پر تفصیلی تبادلہ خیال بھی کریں گے۔ گزشتہ سال بالی میں ہونے والی ملاقات کے بعد چین اور امریکہ کے سربراہان مملکت کے درمیان یہ دوسری بالمشافہ ملاقات ہے جو چین ،امریکہ اور افراتفری کا شکار دنیا کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
چین امریکہ سفارتی تعلقات اپنے قیام کے بعد سے حالیہ برسوں میں انتہائی نچلی سطح پر پہنچے ۔ دونوں سربراہان مملکت نے گزشتہ سال انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں ایک کامیاب ملاقات کی تھی اور کئی اہم امور پر اتفاق رائے طے پایا تھا۔ تاہم، سربراہان مملکت کے درمیان طے پانے والے اتفاق رائے پر عمل درآمد میں امریکہ کی جانب ” قول و فعل کے تضاد ” اور “خلاف ورزیوں” نے دوطرفہ تعلقات میں نئی مشکلات پیدا کیں ۔رواں سال کی دوسری ششماہی سے امریکہ نے بالی اتفاق رائے پر عمل درآمد میں مثبت رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ فریقین کے درمیان اعلیٰ سطحی دوروں کے تبادلے، ایشیا بحرالکاہل کے امور ، اسلحے پر کنٹرول اور اس کے عدم پھیلاؤ اور بحری امور پر مشاورت نیز اقتصادی ورکنگ گروپس، مالیاتی ورکنگ گروپس سمیت تبادلے کے دیگر میکانزم کے قیام اور پہلے اجلاس کے انعقاد اور موسمیاتی مذاکرات کے کامیاب اختتام نے یہ اشارہ دیا ہے کہ چین امریکہ تعلقات مستحکم ہورہے ہیں اور یہ ماحول دونوں سربراہان مملکت کی دوبارہ ملاقات کے لئے بہتر ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران چین امریکہ تعلقات میں آنے والے اتار چڑھاؤ کی وجہ بالکل واضح ہے۔ امریکہ، چین امریکہ تعلقات کو نام نہاد “تزویراتی مسابقت” کے لحاظ سے بیان کرتا ہے جو نہ تو تاریخ کا احترام ہے اور نہ ہی حقیقت کا۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران چین اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ چین امریکہ تعلقات باہمی فائدے اور مشترکہ جیت پر مبنی ہیں۔چین اور امریکہ کے درمیان سفارتکاری، معیشت اور تجارت، سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون اور مسابقت دونوں موجود ہیں۔
درحقیقت رابطے کے پہلے دن سے ہی چین اور امریکہ اپنے سیاسی نظام، ترقیاتی تصورات اور ترقی کے مراحل میں فرق سے بخوبی آگاہ تھے لیکن اس فرق نے نہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کو روکا اور نہ ہی مشترکہ مفادات پر مبنی تعاون کو متاثرکیا۔ چین اور امریکہ کے درمیان امن، باہمی فائدے کا باعث بنتا ہے اور دنیا کے لیے بھی یہ ایک نعمت ہے۔معاشی شعبے میں چین اور امریکہ کے درمیان مسابقت کے مقابلے میں تعاون کہیں زیادہ ہے۔دونوں ممالک کے مابین تجارت 2022 میں تقریباً 760 بلین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچی ۔ رواں ماہ منعقد ہونے والی چھٹی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو میں ، امریکی فوڈ اینڈ ایگریکلچر پویلین میں نمائش کنندگان کو 505 ملین ڈالرز کے آرڈرز موصول ہوئے۔ اس کی مثال کیلیفورنیا میں دونوں ممالک کے ماحولیاتی نمائندوں اور ٹیموں کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کے مذاکرات کے حالیہ کامیاب اختتام سے بھی ملتی ہے۔
چین امریکہ تعلقات کی بنیاد عوام میں ہے اور ان کی بہتری دونوں ممالک کے عوام کی مشترکہ خواہش ہے۔ 23 اکتوبر کو کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے چین کے ایک ہفتے کے دورے کا آغاز کیا ، جس میں ہانگ کانگ ، بیجنگ ، شنگھائی ، صوبہ گوانگ ڈونگ اور صوبہ جیانگ سوسمیت دیگر مقامات کا دورہ شامل تھا ۔ جس دن نیوسم نے چین کا دورہ مکمل کیا، اسی دن امریکی فلائنگ ٹائیگرز کے تجربہ کار فلائنگ ٹائیگر ہیری موئر نے چین میں اپنی 103 ویں سالگرہ منائی۔ حال ہی میں پانچویں چین امریکہ سسٹر سٹیز کانفرنس کامیابی کے ساتھ منعقد ہوئی۔ فلاڈیلفیا آرکیسٹرا چین کے اپنے پہلے دورے کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک کنسرٹ کے لئے بیجنگ آیا اور چین اور امریکہ کے درمیان براہ راست مسافر پروازوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی فائدہ مند تعاون کی مانگ اور قوت محرکہ اب بھی مضبوط ہے۔
دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دو مستقل ارکان کی حیثیت سے چین اور امریکہ کے تعلقات کافی پہلے دوطرفہ دائرہ کار سے نکل کر بنی نوع انسان کے مستقبل اور تقدیر کو متاثر کر نے والے تعلقات بن چکے ہیں ۔ آج کی دنیا میں، پرامن ترقی اور جیت جیت تعاون،ایک نیا رجحان بن گیا ہے. دنیا کا ملٹی پولرائزیشن زیادہ سے زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہے، اور کوئی بھی ملک یا ممالک کا گروہ تنہا عالمی معاملات پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتا. گلوبل ساؤتھ میں” شعور” کاعظیم دور شروع ہو گیا ہے ، دنیا ہم نصیب معاشرے کی شکل تیزی سے اختیار کر رہی ہے ، جبکہ بہت سے عالمی چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان اختلافات تھے، ہیں اور شاید رہیں بھی لیکن چین اور امریکہ کے درمیان مقابلہ جینے مرنے کے بجائے مشترکہ ترقی کے انداز میں ہونا چاہیے ۔
جیسا کہ صدر شی جن پھنگ نے نشاندہی کی ہے کہ اپنی قومی ترجیحات کے نقطہ نظر سے، دنیا چھوٹی بلکہ گنجان ہے، ہر وقت خطرات اور مسابقت کا سامنا ہے. لیکن مشترکہ تقدیر کے نقطہ نظر سے، دنیا وسیع و عریض ہے، اور ہر جگہ مواقع اور تعاون موجود ہے. عالمی بحران کی ہنگامہ خیز لہروں میں دنیا کے ممالک 190 سے زائد چھوٹی اور علیحدہ کشتیوں کی بجائے مشترکہ تقدیر کے ایک بڑے جہاز پر سوار ہیں۔
چین امریکہ تعلقات میں بہتری آسانی سے حاصل نہیں ہوئی۔ سان فرانسسکو کو دیکھتے ہوئے توقع ہے کہ امریکہ منطقی اور عملی رویے کا مظاہرہ کرکے لفظوں کے کھیل کو ترک کرے گا اور چین کے ساتھ مل کر ایک ہی سمت میں چلنے کی کوشش کرے گا تاکہ مستقبل پر مبنی چین امریکہ تعلقات کی مشترکہ تعمیر کی جا سکے، دونوں ممالک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کو مسلسل بہتر بنایا جا سکے، انسانی معاشرے کی ترقی کو فروغ دیا جا سکے، اور عالمی امن و ترقی میں زیادہ سے زیادہ خدمات سرانجام دی جا سکیں۔