لاہور(رپورٹنگ آن لائن)ایگزیکٹو ڈائریکٹر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود کا پارکنسن کے مریضوں کے علاج معالجے کیلئے احسن اقدام، ساڑھے 5کڑور روپے کی لاگت سے ڈی بی ایس (DBS Implants for Parkinson Disease)خریدنے کا عمل شروع کر دیا گیا جس سے اس بیماری میں مبتلا 40مریض سہولت سے استفادہ کرسکیں گے۔
پاکستان میں ڈی بی ایس طریقہ علاج کے بانی و معروف نیورو سرجن پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر اعظم پاکستان کے ہیلتھ ویژن،وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اور صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی مریض دوست پالیسی کے تحت رعشہ اور پٹھوں کے کھچاؤ میں مبتلا افراد کو نیورو انسٹی ٹیوٹ میں تمام سہولیات مفت بہم پہنچائی جائیں گی۔
اس ضمن میں ڈاکٹرز کی طرف سے مریض کا طبی معائنہ کرنے کے بعد سرجری کی ضرورت محسوس کی گئی تو” پنز” میں علاج کیلئے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرناپڑے گااور مریضوں کو اپنے ہی وطن میں بیرون ملک جیسی جدید طبی سہولتیں حاصل ہوں گی۔
پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے پارکنسن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس مرض میں مبتلا مریض کے ہاتھ کانپتے ہیں، چائے کی پیالی تک تھامنا یا چمچ اپنے منہ تک لے جانا بھی مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔اسی طرح پارکنسن میں مبتلا انسانوں کے دماغ میں اعصابی خلیے مر جاتے ہیں، ایسا دماغ کی گہرائی میں واقع اُس حصے میں ہوتا ہے جہاں سے انسانی جسم کی بہت سی حرکات کنٹرول ہوتی ہیں اور جو بتدریج حرام مغز کے ساتھ جا ملتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس مرض کی ابتدائی علامات اس کے پوری طرح سے پھیل جانے سے دس یا بیس سال پہلے سے ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں جبکہ ان خلیات کا تقریبا60سے 70فیصد حصہ متاثر ہو جاتا ہے تو پارکنسن کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں جس میں جسم کی حرکات میں واضح خلل، پٹھوں کا اکڑ جانا، کپکپاہٹ، یا آگے جاکر کھڑے ہونے یا چلنے میں دقت وغیرہ شامل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود کا کہنا تھا کہ پارکنسن (رعشہ) ایک مہنگا علاج ہے جس پر بیرون ملک اس بیماری کے علاج پر تقریباً1کڑور روپے جبکہ پاکستان میں 25لاکھ روپے تک خرچ ہوتے ہیں تاہم موجودہ حکومت نے اس مرض میں مبتلا لوگوں کو مفت سہولیات دینے کیلئے وسائل فراہم کئے ہیں۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ ّف نیورو سائنسز میں ڈی بی ایس جدید طریقہ علاج سے 40مریضوں کو طبی و تشخیصی سہولیات بلا معاوضہ فراہم کریں گے تاکہ اس بیماری سے لوگوں کو چھٹکارا ملے اور وہ دوسروں کے سہارے جینے کی بجائے اپنے پاؤں پرکھڑا ہونے کے قابل ہو سکیں۔
انہوں نے مخیر حضرات سے بھی اپیل کی کہ وہ حکومت کے ساتھ ساتھ اس مرض میں مبتلا لوگوں کی شفاء یابی کیلئے اپنا حصہ ڈالیں اور اس میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔