منشیات فروشوں

پنجاب میں 100برسوں میں پہلی بار سرکار نے شراب کی فروخت پر پابندی عائد کردی

لاہور(شہباز اکمل جندران )
پنجاب میں پہلے لاک ڈاون کے ساتھ ہی 23 مارچ 2020سے صوبے میں سرکاری سطح پر شراب کی فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جو تاحال جاری ہے۔

صوبے میں قانونی طور پرلاہور۔ راولپنڈی ۔ملتان اور فیصل آباد میں واقع 9بڑے ہوٹل شراب فروخت کرسکتے ہیں اس سلسلے میں ان کو L-2 کے لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔
ان ہوٹلوں میں لاہور واقع پی سی ہوٹل۔آواری ہوٹل۔ہالیڈے ان اور ایمبیسیڈر ہوٹل۔راولپنڈی میں پی سی و فلیش مین ہوٹل اور پی سی بھوربن۔ملتان میں رمادا جبکہ فیصل آباد کا سرینا ہوٹل شامل ہیں۔

متذکرہ ہوٹل ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے توسط سے وینڈ فیس ڈیوٹی و دیگر ٹیکسز ادا کرنے کے بعد مری بروری سے شراب پر چیز کرتے ہیں اور بعد ازاں ریٹیل میں فروخت کرتے ہیں۔

تاہم 1914 کے ایکسائز ایکٹ کے تحت ان ہوٹلوں سے صرف پرمٹ ہولڈر غیر مسلم اور غیر مسلم غیر ملکی ہی مقرر کردہ کوٹے پر شراب خرید سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایکسائز ڈیپارٹمنٹ غیر مسلموں کو پرمٹ جاری کرتا ہے جس کے تحت پرمٹ ہولڈر ہر ماہ 6 بوتل شراب خرید سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق غیر مسلم اپنی مذہبی رسومات کئ ادائیگی کے لئے قانونی طورپرشراب خرید سکتے ہیں۔
شراب کی فروخت پر پابندی
تاہم 23 مارچ کے بعد سے صوبے میں شراب کی خریداری بند ہے۔جس سے غیر مسلم دیسی اور زہریلی شراب پینے پر مجبور ہیں۔
 شراب کی فروخت پر پابندی
غیر مسلم پرمٹ ہولڈروں کا کہنا ہے کہ ہوٹلوں سے شراب کی فروخت بند ہونے پر اکثر لوگ جعلی شراب پینے لگے ہیں جسے اموات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
دوسری طرف شراب کی فروخت بند ہونے سے ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کو ریونیو کی مد میں ماہانہ کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے کیونکہ محکمے کو مالی سال 2019 اور 2020 کے لئے ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کا ہدف دیا گیا تھا