خرم دستگیر

مودی اور عمران خان نے آئی ایم ایف میں پاکستان کے قرضے رکوانے کی کوشش کی، خرم دستگیر

اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن)سابق وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا ہے کہ مودی اور عمران خان نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کی، جنوبی ایشیا میں بھارت کی جارحانہ پالیسی نے پورے خطے کو ناراض کیا ہے جبکہ رؤف حسن نے بھارت کی جانب سے پاکستان پر الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے بغیر حقائق کے پاکستان پر الزام لگایا اور ان کے پاس دس منٹ کے اندر رپورٹ کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھے۔

سابق وزیر دفاع و خارجہ انجینئر خرم دستگیر نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی ناکام کوشش کی، تاہم اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت برسوں سے پاکستان کے خلاف دراندازی کے الزامات اور فالس فلیگ آپریشنز کا سہارا لیتا آ رہا ہے، 2016، 2019 اور 2022 کی مثالیں اس کی واضح علامت ہیں، جن میں سے ایک موقع پر بھارتی میزائل میاں چنوں میں آ گرا۔

خرم دستگیر نے کہا کہ اس بار بھارت نے دو نئے محاذ کھولے، ایک تو انڈس واٹر ٹریٹی کی معطلی اور دوسرا آئی ایم ایف کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش۔ ان کے بقول، بھارت کے ان اقدامات سے مضحکہ خیز بو آتی ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مایوس ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے میں بھارت اور پاکستان دونوں ممبر ضرور ہیں، مگر فیصلہ کن اثر امریکا اور یورپی ممالک جیسی طاقتوں کا ہوتا ہے، جو پاکستان کے خلاف اس دباؤ کا حصہ نہیں بنے۔سابق وزیر دفاع نے انکشاف کیا کہ چند برسوں میں صرف دو افراد نے پاکستان کے خلاف آئی ایم ایف کو خط لکھے کہ پاکستان کو قرض نہ دیا جائے، ایک عمران خان اور دوسرا نریندر مودی۔

انہوںنے کہاکہ اپوزیشن کا ایک شخص ذاتی سیاست کے لیے ملک دشمنی کی صف میں کھڑا ہو گیا ہے اور آئی ایم ایف ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران ایک مکمل ڈوسیئر پیش کیا گیا، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ الیکشن کی تحقیقات تک پاکستان کو قرض نہ دیا جائے۔انھوں نے واضح کیا کہ یہ معاملہ صرف خطوط تک محدود نہیں رہا، بلکہ جہاں جہاں ممکن ہوا پاکستان کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ خرم دستگیر نے زور دیا کہ سیاسی مخالفت اپنی جگہ، لیکن پاکستان کے قومی مفاد کو بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچانا ناقابل قبول ہے۔

بھارت کے خطے میں رویے پر بات کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا کہ نئی دہلی کی جارحانہ پالیسی نے پورے جنوبی ایشیا کو ناراض کر دیا ہے۔ ”صرف بھوٹان ان کے ساتھ کھڑا ہے، باقی سب بدظن ہو چکے ہیں۔” انہوں نے بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال بھارت نے تیسری بڑی دریا کا پانی روک کر وہاں شدید احتجاج کی فضا پیدا کر دی، جبکہ چین کے ساتھ 2020 میں معمولی جنگ میں بھارت کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔

خرم دستگیر نے کہا کہ پاک بھارت کشیدگی اب دو نہیں بلکہ تین طاقتوں—امریکا، چین اور بھارت—کے درمیان تناؤ کی صورت اختیار کر چکی ہے، اور اگر وقت پر ڈی اسکیلیشن نہ ہوئی تو حالات بگڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے کاکول اکیڈمی کی تقریب میں دیے گئے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ غیرجانبدارانہ تحقیقات کی تجویز قابلِ عمل ہے۔انہوں نے بھارتی وزیراعظم مودی کے تازہ بیانات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پہلگام واقعے کے نو دن بعد عسکری اختیارات فوج کو دینا اس بات کی علامت ہے کہ مودی اپنے فوجی اداروں سے فاصلہ قائم کر رہے ہیں۔

انہوں نے بھارتی میڈیا اور بعض ارکان پارلیمنٹ کے جنگی بیانات پر تشویش کا اظہار کیا، جنہوں نے یہاں تک کہا کہ ”پاکستان کو مٹا دینا چاہیے۔”خرم دستگیر نے زور دیا کہ خطے کے امن کے لیے سنجیدہ اقدامات اور کشیدگی میں کمی ضروری ہے، ورنہ صرف پاکستان یا بھارت نہیں بلکہ پورا جنوبی ایشیا اس کے اثرات بھگتے گا۔پی ٹی آئی کے رہنما رؤف حسن نے بھارت کی جانب سے پاکستان پر الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے بغیر حقائق کے پاکستان پر الزام لگایا اور ان کے پاس دس منٹ کے اندر رپورٹ کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھے۔

انھوں نے کہا کہ یہ بھارت کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی ہے جو انھیں انفارم نہیں کر سکے، انگلی اٹھانے سے پہلے ان کے پاس حقائق اور شاہد ہونے چاہییں تھے، رؤف حسن نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی و اقتصادی صورتحال بہتر کرنے کی ضرورت ہے، پہلگام فالس فلیگ آپریشن پر پی ٹی آئی نے پاک فوج کی مکمل حمایت کا پیغام دیا ہے۔

رہنما پی ٹی آئی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بھارت کو اب بین الاقوامی سطح پر وہ حمایت نہیں مل رہی جو ماضی میں حاصل تھی، اور چین، سعودی عرب، یو اے ای جیسے ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔انھوں نے کہا کہ پلوامہ واقعے کے دوران خان صاحب نے ایک لیڈر کے طور پر سخت مؤقف اپنا تھا، ان کا بندہ پکڑا گیا اور ہم نے چھوڑ دیا۔ عمران خان انشااللہ باہر آئیں گے، اس کے لیے پی ٹی آئی کی جماعت کوششیں کر رہی ہے۔