اوکاڑہ
( شیر محمد)
اوکاڑہ کی علمی و تہذیبی فضا آج اداس ہے۔ علم و دانش، سیاست اور ترقی پسند فکر کا ایک مینارِ روشنی رانا محمد اظہر ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوگیا۔ وہ بائیں بازو کی فکری روایت کے وہ مشعل بردار تھے جنہوں نے نظریے، علم، اور عوامی شعور کو سیاست کا بنیادی ستون بنایاان کی وفات سے شہر اوکاڑہ ہی نہیں، پورا خطہ اپنے ایک جید دانشور، اصول پسند سیاسی کارکن، اور فکری رہنما سے محروم ہوگیا ہے۔ رانا محمد اظہر اس نسل کے نمائندہ تھے جس نے خواب دیکھا تھا کہ پاکستان ایک جمہوری، غیر طبقاتی، اور ترقی پسند ریاست بنے۔
اُنہوں نے اپنے عہد کی سیاسی تنگ نظری اور مفاداتی جبر کے باوجود اپنی فکری روش کو قائم رکھا۔ وکالت کے پیشے سے وابستہ ہونے کے باوجود ان کی اصل شناخت علم و شعور، موسیقی اور عوامی تحریکوں سے وابستگی تھی۔ ان کی سیاسی زندگی 1960ء کی دہائی میں شروع ہوئی جب بھٹو کے ہم آواز بن کر انہوں نے پیپلز پارٹی کی نظریاتی بنیادوں میں اپنا حصہ ڈالا۔ 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی قافلے کے ساتھ جڑ کر انہوں نے اوکاڑہ میں پارٹی کی تنظیم نو کی اور عوامی شعور کو ابھارنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ان کا گھر، ان کی بیٹھک، ان کی چائے کی محفلیں، سب عوامی سیاست کے فکری مراکز تھے۔ وہ اپنے وقت کے اُن نظریاتی کارکنوں میں سے تھے جن کے نزدیک سیاست دولت کا کھیل نہیں بلکہ عوامی خدمت اور فکری جدوجہد کا نام تھی بعد ازاں جب نظریاتی انحراف اور طبقاتی مفادات نے سیاست کو آلودہ کیا تو رانا اظہر نے پیپلز پارٹی سے الگ ہو کر عوامی نیشنل پارٹی کا حصہ بننا پسند کیا۔ وہ اپنی آخری سانس تک نظریے سے وفادار رہے، کسی سیاسی مصلحت کے سامنے نہ جھکے۔
رانا اظہر کا ماننا تھا کہ “سیاست اگر عوام سے کٹ جائے تو محض اقتدار کی تجارت بن جاتی ہے۔” ان کا طرزِ گفتگو شائستہ، دلیل سے بھرپور، اور انسان دوستی کے جذبے سے لبریز ہوتا تھا۔ ان کی فکری وراثت آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ رہے گی۔ نامور شاعر ادیب فضل احمد خسرو کا کہنا ہے کہ رانا محمد اظہر بائیں بازو کی سیاست کے آخری سچوں میں سے تھے۔ وہ حرف کے مزدور اور خیال کے سپاہی تھے۔ اُن کی بات میں سچائی کی وہ کاٹ تھی جو دلوں میں یقین جگا دیتی ہے۔ ان کا جانا اوکاڑہ کے فکری منظرنامے کے لیے ایسا نقصان ہے جو برسوں پورا نہیں ہو گا۔ سینئر ترقی پسند شاعر و کالم نگار حشمت لودھی کا کہنا ہے کہ، رانا اظہر نے سیاست کو عبادت سمجھ کر برتا۔
وہ عام آدمی کے دکھوں کو اپنی سانس میں محسوس کرنے والے انسان تھے۔ اُن کی محفل میں لفظ بولتے نہیں تھے، جاگتے تھے۔ ہم نے صرف ایک ساتھی نہیں، اپنی فکری تاریخ کا ایک زندہ باب کھو دیا ہے۔ نوجوان محقق احمد نواز الغنی کا کہنا ہے کہ رانا صاحب کا جانا دراصل ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ وہ علم، نظریے اور انسان دوستی کے سنگم تھے۔ اُن کی موجودگی میں گفتگو علم میں ڈھل جاتی تھی۔ آج جب وہ رخصت ہوئے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے اوکاڑہ کا ضمیر خاموش ہوگیا ہو۔