کراچی(رپورٹنگ آن لائن)مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران نئی فصل کی پھٹی کی محدود رسد کے نسبت جننگ فیکٹریاں دھڑا دھڑ شروع ہونے کے سبب رسد اور طلب میں رسا کشی کا عالم دیکھا گیا دوسری جانب کچھ ٹیکسٹائل ملز نے بھی روئی کی خریداری میں دلچسپی دکھائی جس کے باعث روئی اور پھٹی اور بنولہ کے بھاؤ میں نمایاں اضافہ ہوگیا۔
صوبہ سندھ میں روئی کا بھاؤ فی من 7600 تا 7800 روپے کھلا تھا اس میں 600 روپے بڑھ کر فی من 8350 تا 8400 روپے کے بھاؤ پر فروخت ہوا جبکہ صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 8500 روپے کھل کر 500 روپے کے اضافہ کے ساتھ فی من 9000 روپے کی بلند سطح پر پہنچ گیا پھٹی کا بھاؤ بھی فی 40 کلو 300 تا 400 روپے بڑھ گیا صوبہ سندھ میں 4000 تا 4350 اور صوبہ پنجاب میں فی 40 کلو 4400 تا 4500 روپے رہا گو کہ فی الحال پنجاب میں زیادہ تر پھٹی سندھ سے جاتی ہے بنولہ کے بھاؤ میں بھی فی من 200 تا 300 روپے کا اضافہ دیکھا گیا اگر صورت حال ایسی ہی رہی تو بھاؤ میں مزید اضافہ ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔
ڈالر کے بھاؤ میں اضافہ اور اسٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود 7 فیصد تک نیچے آنے کی وجہ سے مقامی ٹیکسٹائل سیکٹر فعال ہوجائے گا اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد بڑھنے کی بھی توقع کی جارہی ہے۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی فی الحال 30 جون تک پرانی روئی کا اسپاٹ ریٹ ارسال کر رہی ہے اور وہ روئی کے بھاؤ میں فی من 100 روپے کا اضافہ کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 8100 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔
ملک میں کپاس کا سیزن یکم جولائی سے 30 جون تک ہوتاہے اس سال کورونا کے لاک ڈاؤن کے سبب پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن نے کپاس کی پیداوار کے حتمی اعدادوشمار تاحال جاری نہیں کیے 30 جون پرانا سیزن کا اختتام ہوگا اس دن اسے لازما حتمی رپورٹ پیش کرنی ہے خیال کیا جاتا ہے کہ جنرز کے پاس پرانی روئی کا تقریبا دو تا ڈھائی لاکھ گانٹھوں کا اسٹاک موجود ہوگا۔
صوبہ سندھ پنجاب اور بلوچستان میں کپاس کی بوائی آخری مرحلے میں ہے تاہم ابھی تک پیداواری تخمینہ کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن پیداواری رقبہ کا اعلان کردیا گیا ہے ہر سال کپاس کے پیداواری رقبہ اور پیداواری تخمینہ کا اعلان Federal Committee of Agricultural کرتی تھی پر اس سال پتہ نہیں کیوں اب تک وہ خاموش ہے ہوسکتا ہے کہ وہ مکمل جائزہ لے کر اعلان کرے بہر حال اس سال ناقص بیج اور ٹڈی دل کے حملہ کے باعث کپاس کی پیداوار سوالیہ نشان ہے پیداوار کے متعلق قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں جو 75 لاکھ گانٹھوں سے 95 لاکھ گانٹھوں کی بتائی جاتی ہے گو کہ فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیوں کہ کپاس کی فصل نازک ہوتی ہے اسے کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔
کراچی کاٹن بروکرزفورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹ میں مجموعی طور پر ملا جلا رجحان رہا چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھنے کی وجہ سے چین فی الحال امریکہ سے اپنی روئی کی درآمد پوری کرتا نظر آرہا ہے پہلے جب امریکہ اور چین کے مابین تنازعہ تھا تو امید کی جا رہی تھی کہ چین بھارت سے روئی درآمد کرے گا اب دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے ممالک سے اشیا درآمد برآمد کا بائیکاٹ کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں اس وجہ سے بھارت میں روئی کے بھاؤ میں مندی میں اضافہ ہو رہا ہے جنرز کو سمبھالا دینے کیلئے کاٹن کارپوریشن آف انڈیا جنرز کو مراعات دے کر روئی خرید رہی ہے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ کے سپپورٹر آسٹریلیا سے بھی چین اپنے تجارتی تعلقات ختم کرنے کا سوچ رہا ہے۔
اس کے بعد فی الحال چین پاکستان اور امریکا سے روئی اور کاٹن یارن درآمد کرنے میں دلچسپی دکھائے گا فی الحال وہ امریکا سے تو وافر مقدار میں روئی درآمد کررہا ہے USDA کی ہفتہ وار رپورٹ میں چین نے سب سے زیادہ درآمدی معاہدے کئے ہیں امریکا کے کپاس پیدا کرنے والے سب سے بڑے اسٹیٹ Texas میں خشک سالی کی وجہ سے کپاس کی پیداوار متاثر ہونے کا امکان بتایا جارہا ہے جس کی وجہ سے نیویارک کاٹن کے وعدے کے بھاؤ میں اضافہ ہونے کی توقع ہے دوسری جانب دنیا کے بڑے ممالک میں کورونا لاک ڈاؤن میں تخفیف کی جارہی ہے اور کاروبار معمول پر آنا شروع ہوگئے ہیں جس کے سبب خریداری دوبارہ شروع ہونے کی امید کی جارہی ہے اس کے سبب دیگر اشیا کے ساتھ ٹیکسٹائل مصنوعات کے کاروبار میں اضافہ ہوسکے گا۔
چین میں روئی کے بھاؤ میں استحکام برقرار رہا لیکن بھارت میں روئی کے بھا میں مسلسل گراٹ ہورہی ہے۔وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکورٹی سید فخر امام کی پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن(پی سی جی اے)کے وفد سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ تکنیکی جدیدیت سے ملک میں کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں کپاس کی پیداوار کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ٹیکس ریفنڈ ، ٹیکسٹائل مل کے ذریعہ روئی کی سست خریداری اور لیکویڈیٹی ایشوز بھی زیر بحث آئے۔
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق جننگ سیکٹر کو بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ وزارت کپاس کی پیداوار کو منافع بخش کاروبار بنانے کے لئے کام کر رہی ہے۔ چائنہ سیڈ ٹیکنالوجی پر کام جاری ہے۔ وزارت نے ٹیکس لگانے کا معاملہ فنانس ڈویژن کے پاس اٹھایا ہے۔ جننگ سیکٹر کو ریلیف دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی۔ جننگ سیکٹر کو جدید بنانے اور پاکستان میں پیدا ہونے والے لنٹوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لیئے ٹکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے کے بارے میں تجاویز زیر غور ہیں۔علاوہ ازیں وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی فخرامام نے کہا ہے کہ جولائی میں افریقہ ایران عمان افغانستان اور بھارت سے ٹڈی دل پاکستان آسکتا ہے۔
آنے والے دنوں میں ٹڈی دل کا زیادہ خطرہ ہے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر سید فخر امام نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹڈی دل نے ملک کے مختلف حصوں کو نشانہ بنایا۔ اس کے خلاف چین نے ہماری مدد کی۔ ٹڈی دل پر اسپرے کے لئے این۔ڈی۔ایم۔اے نے 11 جہازوں کا آرڈر دیا ہے۔چیئرمین پی سی جی اے میاں سہیل جاوید رحمانی، سابقہ وائس چئیرمین شیخ عاصم سعید کی وفد کے ہمراہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اور سپیکر قومی اسمبلی کی قائم کردہ کمیٹی برائے زراعت سے کھل پر نافذ 5 فیصد سیلز ٹیکس ختم کروانے کے متعلق بات چیت ہوئی تھی جس کی روشنی میں کمیٹیوں نے اپنی سفارشات پارلیمنٹ کو بجھوائیں جس پر بحث ہوئی.
پارلیمنٹ میں جناب شاہ محمود قریشی صاحب اور نوید قمر صاحب نے کھل پر عائد 5 فیصد سیلز ٹیکس ختم کروانے کا وعدہ کیا ہے. اس کی بازگشت گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں بھی سنی گئی۔علاوہ ازیں ٹیکسٹائل سیکٹر نے حکومت سے کہا ہے کہ اگلے مالی سال میں ایکسپورٹ 3 ارب ڈالر تک لے جائیں گے کیونکہ ٹیکسٹائل سیکٹر اپنی پوری گنجائش 80۔ 90 فیصد تک کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ بین الاقوامی مارکیٹ سے ان کے پاس آرڈرز ٓانا شروع ہوگئے ہیں۔
تا ہم یہ اس وقت ممکن ہے جب حکومت انرجی مناسب ریٹ پر دے ، ٹیکس بھی کم ہو اور فوری یا بلاتاخیر ریفنڈ کو یقینی بنایا جائے، ایپٹیما نے یہ بات وزیر اعظم کے مشیر برائے کامرس، ٹیکسٹائل، اور سرمایہ کاری کو ایک خط میں کہی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری 17.5 ارب ڈالر تک ایکسپورٹ لے جانے کی کوشش کرے گی، تا کہ ملک کا ٹریڈ خسارہ ختم ہوسکے، ٹیکسٹائل انڈسٹری نے حکومت سے کہا ہے کہ مندرجہ بالا معاملات کو سنجیدگی سے حل کرے ، خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال میں ایکسپورٹ کا ہدف 21ارب ڈالر ہے جبکہ وصول ہونے والی رقم 22.54ارب ڈالر ہے۔
وزیر اعظم کے ٹیکسٹائل اور سرمایہ کاری کے وفاقی مشیر عبدالرزاق داؤد نے ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے 6.2 ارب روپے کی DLTL کی مد میں اضافہ گرانٹ کا اعلان کیا ہے۔