لاہور( رپورٹنگ آن لائن)صوبائی وزیراطلاعات عظمی بخاری نے کہا ہے کہ دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں یک زبان اور متحد ہونا ہوگا، افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں پر تحریک فساد جیسا انتشاری ٹولہ بیٹھا ہو جو اس طرح کے واقعات پر مذمت تو دور کی بات اس کے اوپر اپنی ہی فوج اور اداروں پر چڑھ دوڑے ان کا مورال ڈائون کرے ان کے خلاف پراپیگنڈا کرے وہاں پر متحد ہوکر جنگ لڑنا مشکل کام ہے .
دہشتگردی کے معاملے پر اگر سیاسی جماعتوں نے بات کرنی ہے تو جیل میں بند مجرم کو کیسے ساتھ بٹھا لیا جائے ، ان کی جماعت کے لوگ موجود ہیں ۔ پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاملے کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے ،ہمیں نیا نیشنل ایکشن پلان بنانا پڑے گا ۔ خیبر پختوانخواہ کی ایک اور مسجد میں دھماکہ ہوا ہے ،اللہ پاک سب کی حفاظت کرے .
حالات بہت نازک ہیں،اللہ کرے ایک شخص کو بچانے کی جنگ کے بجائے ہم سب مل کر ملک کو بچانے کی بات کریں تو بہتر ہوگا۔انہوںنے کہا کہ پی ٹی آئی کو دہشتگردی کی جنگ کے خاتمے کے لئے ایک پیج پر آنا پڑے گا ، وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں اس ملک میں رہتے ہیں ،اس ملک میں رہتے ہوئے کتنا فساد کریں گے ، کتنا اور استعمال ہوں گے ،ان کو ثابت کرنا ہوگا اوربیٹھنا ہوگا،یہ ملک ہم سب کا ہے .
اس وقت خیبر پختوانخواہ اور بلوچستان ٹارگٹ پر ہیں، خیبر پختوانخواہ میں خود تحریک فساد کی حکومت ہے ،ان کو اڈیالہ کے اندر بیٹھے ہوئے ایک قیدی کا تو بہت خیال ہے لیکن باقی عوام جو روز دہشتگردی کی نظر ہو رہے ہیں ان کے بارے میں کس نے سوچنا ہے ،امن و امان برقرار رکھنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اس سے یہ بھاگ نہیںسکتے ،ہم نے صرف عمران خان کو بچانا ہے باقی خیبر پختوانخواہ کا کوئی خیال نہیں تو ایسا ہو نہیں سکتا۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے حل کے لئے سیاسی جماعتوں کے مل بیٹھنے اور عمران خان سے رابطے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اب مجرموں کو تو ساتھ نہیں بٹھا سکتے، وہ کوئی بکری چوری کے الزام میں تو جیل میں نہیں ،ان کے جرائم دیکھیں ۔ کہنے کو پی ٹی آئی بڑی جماعت ہے ، ان کے سو کے قریب لیڈر ہیں اور اس میں آٹھ سو گروپ ہیں ،وہ گروپ بیٹھیں بات کریں ۔
نیشنل اسمبلی کے اندر جو بحث ہوئی آپ نے ان کی طرف سے کہیں پر بھی کوئی مذمت کا لفظ کہیں بی ایل اے کے دہشتگردوں کے خلاف بات نہیں سنی ہو گی ، وہ تو افغانستان کے دورے کرتے پھر رہے ہیں ،خیبر پختونخوا ہ کی حکومت افغانستان میں اپنے وفودبھجوانے میں مصروف ہے کہ ہم ان سے بات چیت کریں گے ، اس کے بعد کچھ بات چیت کے لئے رہ گیا ہے ،اب رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ ٹرین پر حملہ کرنے والے دہشتگرد افغانستان میں رابطے میں تھے ۔