اسلام آباد( رپورٹنگ آن لائن) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دورہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کا معاملہ مذاکرات کا حصہ ہوگا،تعلقات میں بہتری کا انحصار دونوں ممالک پر ہے تاہم میں اپنا کردار کرونگا،طالبان کے امیر کی دعوت پردورہ کررہا ہوں،
ان سے ملاقات کیلئے قندھار بھی جائونگا،خواتین تعلیم کا معاملہ اسلامی امارت پر چھوڑ دیا جائے، وہ مسئلہ حل کرلینگے، طالبان کے امیر شیخ ہبت اللہ سے ملاقات بھی کریں گے، مجھے جو دعوت نامہ ملا ہے وہ تو امیر کی اجازت سے مجھے بھیجا گیا ہے اور اصل دعوت تو ان کے امیر کی جانب سے آئی ہے اور امیر سے ملاقات بھی ہوگی۔
سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن افغانستان روانگی سے پہلے اسلام آباد میں اپنی رہائشگاہ پر ”این این آئی ”کے ایڈیٹر طاہر خان کو انٹرویو دے رہے تھے۔جب جمعیت علما اسلام کے امیر سے دورہ افغانستان کے حوالے سے پوچھا گیا کہ کیا آپ حکومت پاکستان کی نمائندگی کریں گے تو مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بظاہر تو یہ جمعیت علمائے اسلام کا وفد ہے تاہم جمعیت علمائے اسلام کے نام سے دورہ تو کوئی معنی نہیں رکھتا ۔
انہوںنے کہاکہ جب تک ہم پاکستان اور افغانستان کے مفادات اور مصلحتوں کو مدنظر نہیں رکھیں گے تو اس سلسلے میں میں نے پاکستان کے متعلقہ ذمہ داران کے ساتھ رابطہ کیا جن میں وزارت خارجہ اور حکومتی رہنما شامل ہیں،حکومت اس سلسلے میں میری ساتھ رابطے میں ہے۔ انہوںنے کہاکہ وزارت خارجہ میں مجھے 3 جنوری کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کیاگیا،پاکستان کے کیا مطالبات ہیں،اس سے معلوم ہوا کہ پاکستان اس دورے کو اہمیت دے رہا ہے۔
اس سوال پر کیا آپ نے حکومت کا پیغام طالبان حکومت کو پہنچانا ہے تو مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارا ان سے جو تعلق ہے اس تعلق کو دونوں ممالک کے مفاد کیلئے استعمال کیا جائیگا اور ہم حکومت پاکستان کا موقف اور جو ہم نے ملاقاتوں میں اخذ کیا ہے وہ طالبان حکومت کو پہنچائیں گے۔اس سوال پر کہ کیا آپ تحریک طالبان پاکستان کا مسئلہ افغان حکومت کیساتھ اٹھائیں گے تو مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس کا امکان ہے،ہم اپنا تعلق خیر کیلئے استعمال کریں گے۔
پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان خراب تعلقات کے حوالے سے اس سوال پر کہ کیا ان کا دورہ نتیجہ خیز ہوگا تو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ اس کا انحصار دونوں فریقوں پر ہے، اگر ارادہ برادرانہ تعلقات اور دوستی کی بحالی ہو تو پہاڑ بھی مٹی بن سکتا ہے اور اگر نیتوں میں فرق آتا ہے تو چھوٹی سی ریت بھی پہاڑ بن جاتا ہے،یہ دونوں حکومتوں کے ارادوں اور عزائم پر منحصر ہے،جو اشارے ہمیں متعلقہ حکام سے ملے ہیں کہ پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ دورے کے مثبت نتائج سامنے آئیں اور طالبان نے مجھے براہ راست دعوت دی ہے تو اس سے بھی آپ دورے کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
جب مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ طالبان کے ساتھ خواتین کی تعلیم پر پابندی اور روزگار کا معاملہ اٹھائیں گے تو انہوں نے کہا کہ خواتین کے تعلیم سے متعلق شریعت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن داخلی معاملات، امن وامان، تجارت، معیشت ، تہذیب معاشرتی اصطلاحات ہر ملک کا حق ہے ۔
انہوں نے یاد دلایا کہ ایران میں جب انقلاب آیا تھا تو تعلیم کا سلسلہ کافی عرصے تک معطل تھا اور ان کے خلاف یہ پروپیگنڈہ تھا کہ تعلیم پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے مطابق افغانستان میں کوئی سیاسی تبدیلی نہیں آئی ہے تاہم 20 سال کی جنگ ختم ہوئی ہے تو دنیا کو کیا مسئلہ ہے کہ ہر بات پرایک مسئلہ اٹھایا جاتا ہے اور ان پر منوانے کی کوشش کی جاتی ہے، ان کو چھوڑنا چاہیے کہ وہ ایک ماحول بنائے ۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسلامی امارت کو یہ احساس ہے کہ انہوں نے اس دنیا کے ساتھ چلنا ہے اور ان کو ان ضروریات کا احساس ہے اور ہمیں کیا ضرورت ہے کہ جب فلسطین میں بچوں اور عورتوں کو قتل عام کیا جارہا ہے ، جنگی جرائم نسل کشی ہورہی ہے اور ان حالات میں بھی افغانستان میں تعلیم کا رونا رویا جا رہا ہے انسانی حقوق کی بات ہورہی ہے لیکن امریکی جیل گوانتانامو جزیرے میں اور افغانستان کے شبرغان جیل میں سینکڑوں طالبان کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا، امریکی جیل بگرام میں کیا ہوتا رہا ہے،
عراق کی ابو غریب جیل میں کیا ہو تھا کیا یہ انسانی حقوق نہیں تھے؟۔جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ طالبان ایک نظام بنا رہے ہیں اور ایک مرحلے کو نہیں پہنچے ہیں اور کچھ پہنچ جائیں گے لیکن اس سے پہلے ایک ہوا بنائی ہوئی ہے ،انسانی حقوقِ میرے خیال میں ایک ملک کو اپنی حالت پر چھوڑ دیں تاکہ وہ اور بغیر کسی دبائو کے اپنا سفر جاری رکھے وہ تمام معاملات کو سمجھنے ہیں۔