جنرل ہسپتال

جنرل ہسپتال میں تپ دق کے پھیلاؤ، بروقت علاج و تشخیص اور اموات کی شرح کم کرنے کے موضوع پر سیمینار

لاہور(رپورٹنگ آن لائن)میڈیکل سائنس کی ترقی،جدیدتحقیق، بر وقت تشخیص اور موثر ادویات کی دستیابی سے ٹی بی کا مرض قابل علاج بن گیاہے تاہم غریب اور پسماندہ ممالک میں تپ دق کے مرض کے متعلق لوگوں میں آگاہی کا فقدان، بے احتیاطی اور دیگر عوامل کی بنا پر ابھی بھی یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریضوں کی بڑی تعداد علاج طویل ہونے کی بنا پر مکمل کرنے کی بجائے ادھورا چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ مرض ضدی(ڈرگ ریز یسٹنٹ) ہو جاتا ہے جو مریض کیلئے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان میں سالانہ 4لاکھ سے زائد مریضوں کا تپ د ق کے مرض میں مبتلا ہونا تشویشناک امر ہے۔

جنرل ہسپتال
جنرل ہسپتال

ان خیالات کا اظہار پرنسپل پی جی ایم آئی و امیر الدین میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر سردار محمد الفرید ظفر نے لاہور جنرل ہسپتال شعبہ پلمونالوجی کے زیر اہتمام تپ دق کے پھیلاؤ، بروقت علاج و تشخیص اور اموات کی شرح کم کرنے کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ پلمانولوجی ڈاکٹر جاوید مگسی، ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عرفان ملک، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ہما بتول، ڈاکٹر نعیم اختر، ڈاکٹر آفتاب انور اور ڈاکٹر عمر چیمہ نے ٹی بی کی مختلف اقسام، پیچیدگیوں، احتیاطی تدابیر اور جدید طریقہ علاج پر تفصیلی روشنی ڈالی جبکہ سیمینار میں نوجوان ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکس بھی شریک تھے۔ ایم ایس ڈاکٹر خالد بن اسلم نے کہا کہ جنرل ہسپتال میں سوموار تا ہفتہ آؤٹ ڈور میں طبی معائنے کی سہولت سمیت تشخیص کیلئے جدید مشینری و آلات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک دنیا میں ٹی بی ایک مریض بھی موجود ہو گا بیماری کے پھیلاؤ کے امکانات باقی رہیں گے۔

پروفیسر الفرید ظفر نے کہا کہ ڈرگ ریز یسٹنٹ ٹی بی کے علاج کیلئے لاکھوں روپے کی ضرورت ہوتی ہے جو عام آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تپ دق کے علاج کیلئے سرکاری ہسپتالوں میں مفت تشخیصی سہولیات،ادویات کی غرض سے وافر فنڈز مختص کئے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کارخیر میں مخیر حضرات بھی آگے آئیں اور تپ دق کے خلاف اپنے وسائل سے جہاد میں حصہ لیں۔ طبی ماہرین نے کہا کہ یہ جراثیم سے پھیلنے والی بیماری ہے جو مریض کے کھانسنے، تھوک بلغم وغیرہ، فرش اور کھلی جگہوں پر پھینکنے سے ارد گرد کے ماحول میں رہنے والے افراد اور اہل خانہ کو متاثر کرتا ہے اور اس طرح ایک مریض سال بھر میں 10کے قریب صحت مند اشخاص میں اپنا مرض منتقل کر سکتا ہے جس کی روک تھام کیلئے سنجیدہ کوششیں کرنا ضروری ہیں اور عوامی سطح آگاہی مہم شروع کی جائے تاکہ لوگ ٹی بی کے مرض سے بچیں۔ ڈاکٹر عرفان ملک کا کہنا تھا کہ ہر 1لاکھ مریضوں میں سے 34کے قریب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ ڈاکٹر آفتاب انور نے کہا کہ بچوں میں تپ دق کے مرض کی علامات بڑوں کی نسبت مختلف ظاہر اور بچے سستی، بیزاری اور چڑچڑے ہو جاتے ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ڈاکٹر جاوید مگسی اور ڈاکٹر ہما بتول نے کہا کہ پھیپھڑوں کے ٹی بی میں مبتلا افراد کے علاج کی مدت 6ماہ اور آنتوں کیلئے 1سال جبکہ دماغ کی ٹی بی ہونے کی صورت میں 15ماہ تک ادویات لیناہونگی۔

میڈیا سے گفتگو میں پرنسپل پی جی ایم آئی نے کہا کہ لوگ تمباکو نوشی، الکوحل، پان اور گٹکا وغیرہ سے اجتناب برتیں اور تپ دق کے مرض میں مبتلا مریض معالج کی ہدایت کے مطابق اپنے علاج کا کورس مکمل کریں تاکہ مکمل شفاء یاب ہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ ٹی بی کو سماجی برائی سمجھنے کی بجائے مریض کے ساتھ اچھا برتاؤ او اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور ڈاکٹروں کا کام صرف مریض کا علاج ہی نہیں بلکہ انہیں ایجوکیٹ کرنا بھی ہوتا ہے جس کے لئے انہیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔

پروفیسر الفرید ظفر نے کہا کہ شہروں کے مصافات میں کچی اور پسماندہ آبادیوں، اندھیرے،چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل گھروں میں زیادہ تعداد میں رہنے والے افراد تپ دق کی بیماری کا آسان ہدف بنتے ہیں کیونکہ ایسی جگہوں پر مریض کے کھانسنے، چھینکنے کی وجہ سے جراثیم فضا ء میں موجود ہوتا ہے جو نزدیک بیٹھے افراد متاثر کرتا ہے لہذا عوام اپنے وسائل کے مطابق کنبہ محدود رکھیں تاکہ بہتر معیاری زندگی اپنا کر صحت مند رہ سکیں۔سیمینار کے اختتا م پر ٹی بی سے بچاؤ کے متعلق پمفلٹس بھی تقسیم کئے گئے۔