غربت

غربت کے خلاف کرشمہ: انسانی ترقی میں چین کا انقلابی کردار

بیجنگ (رپورٹنگ آن لائن)زمانہ قدیم سے ہی انسانی معاشروں کو غربت جیسے بڑے مسئلے کا سامنا رہا ہے اور یہ انسانی بقاء اور ترقی کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ یہ دراصل معاشرے کے وسائل کے موثر استعمال میں ناکامی، پیداواری قوتوں کے غیر متوازن ارتقاء اور وسائل کی تقسیم میں ناانصافی کا نتیجہ ہے ، اور اسے ہم نظام کا ایک بڑا نقص کہہ سکتے ہیں۔

یہ محض مادی قلت ہی نہیں بلکہ معاشرتی وقار سے محرومی اور مواقع اور ترقی کے حق سے محرومی بھی ہے۔ انسانی تہذیب کے ارتقاء کے تناظر میں، غربت ہزاروں سال سے چلی آ رہی ایک پیچیدہ بیماری ہے، جس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان انفرادی مصائب سے کہیں زیادہ ہے، اور یہ کسی بھی تہذیب کے ارتقاء میں ایک گہری رکاوٹ کا باعث ہے۔

انسانی ترقی کی طویل تاریخ میں، غربت کی تباہ کاریاں نہایت شدید رہی ہیں۔ یہ سماجی بے چینی اور جنگوں کی ایک اہم وجہ رہی ہے — جب کسی علاقے میں انسانی بقاء ہی مشکل ہو جائے تو قحط ہجرت کا باعث بنتے ہیں، وسائل کا مقابلہ تنازعات اور جنگوں کو جنم دیتا ہے، اور غربت کے باعث صحت کے ناکافی انتظام اور تعلیم کی کمی بیماریوں اور جہالت کو پھیلاتی ہے، جس سے “غربت-بے چینی-مزید غربت” کا ایک اندھا چکر وجود میں آتا ہے۔

غربت نہ صرف زندگیاں نگلتی ہے بلکہ تخلیقی صلاحیتوں کو بھی ختم کر دیتی ہے: بےشمار غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد خوراک، لباس اور تعلیم سے محرومی کے باعث انسانی تہذیب میں اپنا حصہ ڈالنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ غربت سماج میں طبقاتی نظام کو مضبوط کرتی ہے، جس کے وجہ سے یہ زہر کئی نسلوں تک سرایت کر جاتا ہے اور سماجی ارتقاء رک جاتا ہے۔ جدید دور میں بھی غربت ایک عالمی مسئلہ ہے، اور آج بھی دنیا کی آٹھ فیصد سے زیادہ آبادی بنیادی ضروریاتِ زندگی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

چین نے مطلق غربت کے خاتمے کا جو عزم ظاہر کیا ہے، وہ انسانی تاریخ کا ایک انتہائی مثالی اور عظیم خواب ہے، جس کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ اس نے “غربت کے ناقابلِ علاج ہونے” کے تاریخی مغالطے کو توڑ کر انسانی مساوات اور جدوجہد کی بنیاد پر ایک بہترین معاشرہ قائم کیا ہے۔

انسانی تہذیب کے گزشتہ سفر میں، غربت میں کمی کو زیادہ تر خیراتی کام یا عارضی حل سمجھا جاتا تھا، لیکن چین نے اسے قومی حکمتِ عملی اور تاریخی مشن کا درجہ دیا، اور “اس سفر میں کوئی بھی پیچھے نہ رہے” کے عزم کے ساتھ اس صدیوں پرانی بیماری کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ اس عزم کی اہمیت یہ ہے کہ اس نے انسانی ترقی کی بنیادی رکاوٹ کو سمجھا — بقاء کا حق تمام انسانی حقوق کی بنیاد ہے، اگر بقاء کی ضمانت نہ ہو تو دیگر انسانی حقوق کی ضمانت ریت کا محل تعمیر کرنے کے مترادف ہے، جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہوتی۔

مغرب کے میگنا کارٹا، انسانی حقوق کے اعلامیے جیسے تاریخی دستاویزات کے مقابلے میں، چین کے مطلق غربت کے خاتمے کے عزم اور اس پر عمل درآمد کو زیادہ حقیقی اور دور رس اثرات حاصل ہیں۔ اگرچہ ان مغربی دستاویزات نے تاریخ میں انسانی حقوق کے تصور کی ترقی میں مدد دی، لیکن وہ زیادہ تر سیاسی حقوق اور قانونی مساوات پر مرکوز رہیں اور محروم طبقات کے بقاء کے مسائل حل نہ کر سکیں۔

جبکہ چین کی غربت کے خلاف مہم کا ہدف یہ تھا کہ “ہر شخص کو خوراک، لباس، اور بنیادی ترقی کے مواقع میسر آ سکیں”، جس نے انسانی حقوق کو نظریاتی بحث سے نکال کر حقیقی بقاء کی ضمانت بنا دیا۔ جب کروڑوں غریب افراد جھگیوں سے نکل کر صاف پانی تک رسائی حاصل کرنے لگے اور انہیں صحت و تعلیم کے وسائل میسر آئے، تو انسانی حقوق کی یہ حقیقی اور جامع ضمانت کسی بھی کاغذی اعلامیے سے کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہوئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسانی حقوق کی تکمیل کے لیے مادی بنیادوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور بقاء کے حق کی مکمل ضمانت ہی انسان کی اعلیٰ انسانی حقوق کی جدوجہد کی بنیاد ہے۔

چین کی غربت کے خلاف مکمل کامیابی نے انسانی ترقی کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کیا ہے، جس کی اہمیت قومی حدود اور نظاموں سے بالاتر ہے، اور اس نے عالمی ترقی کے لیے ایک نیا ماڈل پیش کیا ہے۔ 1949 میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے وقت، چین کی فی کس قومی آمدنی محض 27 امریکی ڈالر تھی، اور آبادی کا بیشتر حصہ انتہائی غربت کا شکار تھا۔

گزشتہ سات دہائیوں کے دوران، چینی حکومت نے غربت میں کمی کے پروگراموں کو مسلسل آگے بڑھایا ہے۔ عالمی بینک کے بین الاقوامی غربت کے معیار کے مطابق، 1978 سے اب تک، چین میں اسی کروڑ سے زیادہ افراد غربت سے باہر نکل چکے ہیں، جو اسی عرصے میں غربت سے نکلنے والی عالمی آبادی کا 70 فیصد سے زیادہ ہیں۔ یہ غربت کے خلاف دنیا کا سب سے بڑا پروگرام ہے.

جس میں چین نے اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقی کے ایجنڈے میں شامل غربت کے خاتمے کے ہدف کو مقررہ وقت سے دس سال پہلے حاصل کر لیا، اور “غربت کے خلاف کرشمہ” تخلیق کیا۔ طریقہ کار کے حوالے سے، چین نے “اہدافی تخفیف غربت ” پر زور دیا، اور اپنے قومی حالات کے مطابق صنعتی ترقی اور نقل مکانی کے ذریعے غربت میں کمی جیسے مختلف طریقے اختیار کیے، جس سے ثابت ہوا کہ غربت ناقابلِ شکست نہیں ہے۔ اس طرح چین نے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک قابلِ تقلید عملی تجربہ مہیا کیا۔

اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ چین کے غربت کے خلاف اقدامات نے انسانی ترقی کی اقداری سمت کو نئی شکل دی ہے — اس نے مغرب کی جانب سے فراہم کردہ انسانی حقوق کے مخصوص بیانیے کا ایک متبادل پیش کیا، اور ثابت کیا کہ انسانی حقوق کے حصول کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، اور بقاء اور ترقی کے حقوق دنیا کے تمام عوام کی سب سے اولین ضرورت ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے اور امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے.

چین کی غربت کے خلاف کامیابیوں نے انسانیت کے لیے اعتماد پیدا کیا ہے، بڑے کاموں کو انجام دینے کے اجتماعی نظام کی برتری کو ظاہر کیا ہے، اور انسانی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لیے مضبوط بنیاد رکھی ہے۔ اس نے دنیا کو بتایا ہے کہ حقیقی انسانی ترقی کا تعلق چند لوگوں کی خوشحالی سے نہیں، بلکہ تمام انسانوں کی مشترکہ ترقی سے ہے۔ غربت کا خاتمہ نہ صرف چین کا تاریخی مشن ہے، بلکہ انسانی تہذیب کے اعلیٰ مراحل کی طرف سفر کا ناگزیر راستہ بھی ہے۔