بیجنگ (رپورٹنگ آن لائن) حالیہ برسوں میں، چینی کاروباری اداروں کو بھارت میں اپنی ترقی کے سلسلے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر دسمبر 2021 کے بعد سے، ہوا وے اور شیاؤمی جیسے بہت سے چینی موبائل فون مینوفیکچررز کو متعلقہ بھارتی محکموں کی جانب سے تحقیقات کے متعدد ادوار سے گزرنا پڑا ہے۔بد ھ کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق گزشتہ سال جون میں بھارت کے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے شیاؤمی کی بھارتی برانچ، کچھ ایگزیکٹوز اور متعلقہ بینکوں کو باضابطہ نوٹس جاری کرتے ہوئے ان پر غیر قانونی طور پر بیرون ملک رقوم منتقل کرنے اور مبینہ طور پر بھارت کے فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے بھاری جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
نہ صرف چینی کمپنیاں بلکہ بھارتی ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے سام سنگ، شیل، نوکیا، آئی بی ایم اور وال مارٹ جیسے کئی غیر ملکی اداروں سے بھی ٹیکس تحقیقات کی ہیں اور ان پر بھاری جرمانے عائد کیے ہیں۔ اس رجحان کی وجہ سے بھارت کی ٹیکس پالیسی اور انتظامیہ پر تنازع پیدا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2014 سے نومبر 2021 تک بھارت میں رجسٹرڈ 2،783 غیر ملکی کمپنیوں نے بھارت میں اپنا کام بند کر دیا، جو بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا چھٹا حصہ ہے۔
قانون کی آڑ میں سرکاری اقدامات کے ساتھ ساتھ ، حالیہ برسوں میں بھارتی معاشرے میں غیر ملکی کمپنیوں اور مصنوعات کے بائیکاٹ کی ایک لہر بھی آئی ہے ۔ تاہم بھارتی حکومت نہ صرف تنگ نظری ، تحفظ پسندانہ تصورات کے ساتھ رائے عامہ سے موثر انداز میں نمٹنے میں بھی ناکام رہی بلکہ اس نے سخت معاشی پالیسیوں کا سلسلہ بھی اپنایا، غیر ملکی صنعتی و کاروباری اداروں کے لیے نگرانی کے معیار کو بار بار بڑھایا، منظوری کے عمل کی پیچیدگی میں اضافہ کیا، غیر ملکی کمپنیوں کی مارکیٹ تک رسائی کو محدود کیا اور غیر ملکی کاروباری اداروں پر سخت کنٹرول کا نفاذ کیا ، جس کے نتیجے میں کچھ بین الاقوامی کمپنیوں کو بھارتی مارکیٹ میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ انہی وجوہات کی بنا پر بین الاقوامی کاروباری برادری نے بھارت کو “سرمایہ کاری کا بلیک ہول” قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے فنانشل ٹائمز نے لکھا کہ مسابقتی خوف اور تجارتی تحفظ پسند پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کی صنعتوں کی تیز رفتار ترقی کو فروغ دینا مشکل ہے اور بھارت عالمی صنعتی منتقلی کے بہترین مواقع کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا ، وہ صرف مختلف مقامی سیاسی و جغرافیائی مسابقتی معاملات میں الجھا ہوا ہے ، اور مقامی کاروباری اداروں کے بارے میں بہت متعصب ہے ۔ یوں بے تحاشہ ٹیرف اور دیگر تحفظ پسندانہ پالیسیوں نے بھارتی مصنوعات کے لیے عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کرنا مشکل بنا دیا ہے۔
تاہم اس مسئلے پر بھارتی حکومت کا رد عمل کافی افسوس ناک رہا ہے۔ کچھ بھارتی پالیسی سازوں کا دعویٰ ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں پر بعض پابندیاں عائد کرنا ملکی صنعتوں کے تحفظ اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حد سے زیادہ رسائی کو روکنے کے لیے ہے۔ یقینا پالیسی سازوں کے اپنے اور ان کی اپنی پارٹیوں کے سیاسی مفادات کی خاطر ملکی رائے عامہ کو مطمئن کرنے کی ذہنیت بھی بھارتی حکومت کے مسلسل احمقانہ اقدامات کی اہم وجہ ہے۔ اس طرح کا تحفظ پسندانہ نقطہ نظر اکثر صرف کچھ روایتی صنعتوں کو مختصر وقت کے لئے برقرار رکھ سکتا ہے ، لیکن اس سے پورے ملک کی معاشی اپ گریڈیشن کو فروغ دینا مشکل ہے۔
بعض دانشوروں نے نشاندہی کی ہے کہ بھارت میں طاقتور انتہا پسند اور بنیاد پرست قوتیں موجود ہیں جنہیں مرکزی دھارے کی بین الاقوامی رائے عامہ نے نظر انداز کیا ہے۔ تاریخی طور پر بھارتی سیاست میں انتہا پسندی کا سراغ ہندو قوم پرستی سے لگایا جا سکتا ہے جو انیسویں صدی میں بھارت کی قومی آزادی کی تحریک کے دوران وجود میں آئی تھی۔ 1925 میں نیشنل والنٹیئر کور (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، آر ایس ایس) کی تشکیل نے ہندو قوم پرستی کے اثرات کو نئی بلندی تک پہنچا دیا۔فی الحال بھارتی معاشرہ داخلی، سیاسی اور معاشی اصلاحات کے نازک دور سے گزر رہا ہے، جس میں نمایاں سماجی تضادات اور بین الاقوامی تعلقات میں متعدد چیلنجز موجود ہیں۔
مودی حکومت کو امید ہے کہ سماج کے ارکان کو ہندو مذہب کی روح میں متحد کیا جائے گا اور “ہندو شناخت” کے نظریاتی رجحان کے ذریعے بی جے پی کی حکمرانی کو مستحکم کیا جائے گا۔ تاہم ہندو قوم پرستی بھارت کو سیاست اور رائے عامہ میں انتہا پسندی کے بھنور میں پھنسا سکتی ہے، بھارت کے سیاسی ماحول کے عدم استحکام کو بڑھا سکتی ہے اور اس طرح بھارت کے داخلی و خارجی معاملات میں مزید مضحکہ خیز اور بے قابو اقدامات اختیار کرنے کے امکانات میں اضافہ کر سکتی ہے۔
عالمی اقتصادی رابطوں کے موجودہ دور میں ممالک کے درمیان تعاون اور مسابقت اب زیرو سم گیم نہیں ہے۔ بھارتی حکومت کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ملکی معیشت کی پائیدار ترقی صرف عالمی سطح پر جیت جیت تعاون کی صورتحال میں ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تحفظ پسندانہ پالیسیوں کو اندھا دھند اپنانے سے عالمی صنعتی چین میں بھارت پسماندگی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ “سرمایہ کاری کے بلیک ہول” کی رائے کو تبدیل کرنے کے لیے، بھارتی حکومت کو چین اور سنگاپور جیسی ایشیائی معیشتوں کے کامیاب تجربے سے سیکھتے ہوئے مکمل طور پر کھلے ذہن کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔
بھارت کو چاہیے کہ وہ مارکیٹ کو کھول کر، جدت طرازی کی حوصلہ افزائی کرے، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرے ، جیت جیت تعاون کے تصور کے تحت حقیقی معاشی خوشحالی کے حصول کے لیے کوشش کرے اور عالمی معیشت کی مشترکہ ترقی میں حصہ ڈال کر اپنی صنعتوں کی اپ گریڈیشن اور تبدیلی کو فروغ دے۔