عزیر بلوچ

وفاقی وزرا ءنے عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی کے معاملے پر سپریم کورٹ سے سوموٹو نوٹس لینے کی اپیل

اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن)وفاقی وزرا ءنے عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی کے معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوموٹو نوٹس لینے کی اپیل کر دی ۔

وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس پاکستان سے لوگوں کو نجات دلائیں گے جہاں لوگ سیاست ملک کو آگے لے جانے کے بجائے مفادات کے فروغ کے لیے کرتے ہیں اور اداروں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے ذاتی گینگ کو فروغ دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس کی حالیہ مثال ہے وہ مسئلہ ہے جسے رکن قومی اسمبلی علی حیدر زیدی نے اٹھایا کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ جو بھی چیزیں ہوتی ہیں اس کے لیے جو بھی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ان کا مقصد صرف رسمی کارروائی نہیں بلکہ عوام کے سامنے حقائق لانا ہوتا ہے۔

شبلی فراز نے کہا کہ وہ صوبہ جو شاہ عبدالطیف بھٹائی اور لعل شہباز قلندر کی سرزمین ہے اس میں جو جماعتیں اقتدار میں رہیں کس طرح سے انہوں نے سندھ کے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچایا اپنے ذاتی جائیدادوں کو بڑا کیا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے قانون کی بالادستی کے بجائے اپنی ایک ذاتی ریاست بنالی۔

اس موقع پر وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے کہا کہ تہذیب یافتہ ممالک میں سیاسی مباحثے دائیں اور بائیں بازو کی ہوتی ہے لیکن پاکستان میں صحیح اور غلط کی سیاست ہو رہی ہے ہم طویل جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئے اور اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ہمیں وزیر بنانے کے قابل سمجھا لیکن اس ملک میں وزیر بننے کے بعد لوگ کیا کرتے رہے ہیں ہم سب جانتے ہیں ہم ملک بدلنے اور ملک کو صحیح راہ پر لگانے کے لیے آئے ہیں اور اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے سزا اور جزا کے نظام پر عمل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ موٹر سائیکل اور گاڑی کی چوری کی بات نہیں ہے بلکہ 158افراد کے قتل کا عذیر بلوچ خود اعتراف کر چکا ہے اور جے آئی ٹی ریلیز کی گئی تو ان کے ترجمان نبیل گبول کہنے لگے کہ یہ جے آئی ٹی پوری نہیں ہے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے اعتراف کیا جلیل کو قتل کیا جس رپورٹ پر آئی ایس آئی،ایم آئی،رینجرز کے دستخط ہیں وہ مختلف ہے اصل رپورٹ میں رزاق کمانڈو کو مارنے کیلئے قادر پٹیل کے احکامات کا ذکر ہے، جبار لنگڑا اور بابالاڈلہ نے جلیل کو اغوا کرکے قادرپٹیل کو آگاہ کیا اور رپورٹ کے مطابق قادرپٹیل نے براہ راست رزاق کمانڈوکے بھائی جلیل کو قتل کرنے کا کہا اصل جے آئی ٹی میں قادرپٹیل،نثارمورائی ، اویس مظفر نے عزیر بلوچ کی حمایت کاذکر ہے اور ذوالفقار مرزا کے استعفے کے بعد شرجیل میمن، اویس مظفر سارے کام کراتے تھے ۔

پریس کانفرنس کے دوران علی زیدی نے پیپلز پارٹی رہنماوں کی عزیر بلوچ سے ملاقات سمیت مختلف ویڈیوز بھی چلائیں اور 4مارچ 2013 کا حکومت سندھ کا اعلامیہ بھی دکھایا جس میں حکومت سندھ نے عزیر بلوچ کی سر کی قیمت مقرر کی تھی۔علی حیدر زیدی نے عزیر بلوچ کا بیان حلفی سناتے ہوئے کہا کہ صفحہ نمبر 7 میں عذیر بلوچ نے کہا تھا کہ سینیٹر یوسف بلوچ کے کہنے پر وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور فریال تالپور سے ملا اور اپنے خلاف ہیڈمنی ختم کروانے کا کہا جسے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے حکم پر ہٹادیا گیا تھا آخری صفحے پر عذیر بلوچ نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ ان انکشافات کے بعد مجھے اور میرے گھر والوں کو جان سے ماردیا جائے گا جس کے لیے میں درخواست کرتا ہوں کہ مکمل حفاظت کی جائے کیونکہ مجھے آصف زرداری اور دیگر سیاسی لوگ بشمول ان کے جن کا ذکر میں نے بیان حلفی میں کیا ان کی جانب سے انتقامی کارروائی کا خطرہ ہے۔

وزیر بحری امور نے کہا کہ گزشتہ روز حکومت سندھ نے اپنی ویب سائٹ پر بڑی مشکل سے بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹ جاری کردی اس میں جو انکشافات اور جن جن کے نام ہیں وہ آپ کو معلوم ہے جس میں سندھ پولیس، ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے، ایم آئی، ایس ایس پی ایسٹ، ڈی جی رینجرز سب کے دستخط ہیں۔بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹ سے متعلق علی زیدی نے کہا کہ آخری صفحے پر لکھا گیا تھا کہ بلدیہ فیکٹری کا خونی اقدام پولیس کی نااہلی کی واضح مثال ہے جے آئی ٹی نے مذکورہ تفتیش پر تنقید کی اور نتیجہ اخذ کیا کہ خوف اور حمایت کے غالب رہنے والے عناصر نے پولیس کی کارکردگی کو متاثر کیا، جے آئی ٹی میں کہا گیا کہ اس کی ایک اور ابتدائی اطلاعی رپورٹ(ایف آئی آر) درج ہونی چاہیے اور ایک اور مرتبہ تحقیقات ہونی چاہئیں جے آئی ٹی میں یہ لکھا گیا تھا اس طرح اداروں کو تباہ کیا گیا ہے، ایس ایس پی رضوان احمد نے جب رپورٹ جاری کی تو شکار پور تبادلہ کردیا گیا،

رضوان احمد کی رپورٹ چنیسر گوٹھ محمود آباد کے منشیات فروش اور جرائم پیشہ افراد پرہے ایس ایس پی کی رپورٹ میں فرحان غنی کا ذکر ہے جو ان کی سرپرستی کرتا ہے، فرحان غنی سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی کا بھائی ہے ، میں نے 2017میں چیف سیکرٹری سندھ کو خط لکھا تھا ، چیف سیکرٹری سندھ نے میرے خط کا دوبار جواب نہیں دیا۔جے آئی ٹی رپورٹس پر سندھ ہا ئیکورٹ میں اپیل دائر کی سندھ حکومت نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی کہ علی زیدی فریق نہیں عدلیہ نے سربمہر رپورٹس پڑھ کر کہا کہ قومی سلامتی کا کو ئی خطرہ نہیں سندھ ہائیکو رٹ کے حکم باوجود سندھ حکومت نے جے آئی ٹیز پیبلک نہ کیں سندھ ہائیکو رٹ کے فیصلے کے بعد پھر چیف سیکرٹری کو خط لکھا مگر کو ئی جو اب نہیں آیا ۔

وزیر بحری امور نے کہا کہ میں وفاقی وزیر کی حیثیت سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سے اپیل کرتا ہوں کہ 184(3) کے تحت اس معاملے پر آج آپ سوموٹو نوٹس لیں اور آپ مجھ سے بھی جے آئی ٹی لیں اور ان سے بھی مانگیں جن لوگوں نے جے آئی ٹی پر دستخط کیے ہیں انہیں چیف جسٹس عدالت طلب کر کے پوچھیں کہ کیا یہ ان کے دستخط ہیں اور اس جے آئی ٹی میں یہ چیزیں کیوں تھیں اگر کوئی پٹیشن نہیں کرے گا تو اپنے طور پر بھی جا کر 184(3) کے تحت ایک پٹیشن کر دوں گا کہ سپریم کورٹ اس پر سوموٹو نوٹس لے کیونکہ جن لوگوں کے احکامات پر قتل ہوتے رہے وہ ابھی بھی پارلیمنٹ میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہو ںنے کہا کہ یہ قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوتے ہیں ٹیکس کے پیسے پر رہ رہے ہوتے ہیں، قبضوں، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، اور جوئے کے اڈوں میں ملوث ہیں اور یہ سب جے آئی ٹی میں لکھا ہوا ہے اس کے جو بھی نتائج ہوں گے میں ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔

وفاقی وزیر نے کہا وزیراعظم سے ملاقات کی انھیں صورتحال سے آگاہ کیا، وزیراعظم نے کہاکوئی ساتھ ہو یا نہ ہو میں تمہارے ساتھ ہوں، اسی وجہ سے سینیٹر شبلی فراز بھی میرے ساتھ موجود ہیں، جے آئی ٹی معاملے کا جو بھی نتیجہ ہوگااس کاسامنا کرنے کوتیار ہوں۔