شہباز اکمل جندران۔۔۔
پنجاب میں معلومات تک رسائی کے قانون کو کم پذیرائی کا سامنا ہے۔سرکاری دفاتر کی ورکنگ، فنڈز کے استعمال، شفافیت، میرٹ، ریکروٹمنٹ،بھرتیوں، ایگزیکیوشن، عمل درآمد، بجٹ اور فیصلوں کے متعلق پوچھے جانے والے تحریری سوالات کے جواب دینے میں نہ صرف تامل برتا جاتا ہے بلکہ جواب دینے سے کترایا جاتا ہے۔تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں اور قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے ادھوری و نامکمل معلومات دی جاتی ہیں۔
ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسر بہاولپور محمد جاوید اختر سے دی پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 اور دستور پاکستان کے آرٹیکل 19 اے کے تحت تحریری سوال کیا گیا کہ یکم جولائی 2019 سے 24 فروری 2020تک بہاولپور میں آرمی آکشن کے تحت خریدی جانے والی کتنی گاڑیاں رجسٹرڈ کی گئیں۔
اس پر ای ٹی او محمد جاوید اختر نے تحریری طور پر جواب دیا کہ مذکورہ بالا عرصے کے دوران بہاولپور میں زیر موضوع کیٹیگری کے تحت ایک بھی گاڑی رجسٹرڈ نہیں ہوئی۔
تاہم درخواست گزار نے تحریری طور پر ای ٹی او مذکور کو آگاہ کیا کہ گاڑی نمبر
BR-19-727
BR-19-775
BR-19-996
BR-19-997
و دیگر یکم جولائی 2019 سے 24 فروری 2020کے دوران بہاولپور میں رجسٹرڈ ہوچکی ہیں۔جس پر ای ٹی او ایکسائز محمد جاوید اختر نے تحریری طور پر تسلیم کیا کہ متذکرہ بالا نمبر آرمی آکشن کے تحت خریدی جانے والی گاڑیوں کو الاٹ کئے گئے ہیں تاہم ابھی تک ان گاڑیوں کورجسٹریشن بکس جاری نہیں کی گئیں۔
اس پر درخواست گزار نے پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013کے سیکشن 15 اور دستور پاکستان کے آرٹیکل 19 اے کے تحت ایکسائز افسر کے خلاف کارروائی
کے لئے پنجاب انفارمیشن کمیشن اور ڈائیریکٹر ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ بہاولپورجام سراج سے رجوع کیا جہاں معاملے لی الگ الگ انکوائری شروع کر دی گئی ہے
ڈائیریکٹر ایکسائز بہاولپور جام سراج کا کہنا ہے کہ قانون کا غلط استعمال جرم ہے۔البتہ انکوائری کے بعد حقائق سامنے لئے جائیں گے