لاہور(شہباز اکمل جندران)
پاکستان میں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے مندر تعمیر نہیں ہوسکتا۔حکومت پبلک منی کو عوامی امنگوں کے برعکس استعمال نہیں کرسکتی۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس کا سرکاری مذہب بھی اسلام ہے۔ملک میں کوئی ایسا اقدام جو مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بنتا ہے۔ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
دستور1973کے آرٹیکل 2کے مطا بق ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا۔اوردستور کے آرٹیکل 20میں ملک کے ہر شہری کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے۔آرٹیکل 20بی کے تحت ملک میں ہر مذہب اپنی عبادتگاہیں تعمیر کرنے کا حق رکھتا ہے۔
تاہم آئین میں غیر مسلم اقلیتوں کو اس بات کی یقین دہانی نہیں کروائی گئی کہ حکومت عوامی فنڈز سے اقلیتوں کی عبادتگاہیں تعمیر کریگی۔
قیام پاکستان کے بعد 74برسوں میں پہلی بار وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر زبان زدعام ہے۔
اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن ٹو میں ہندووں کی درخواست اور نیشنل کمیشن فار ہومین رائٹس کی سفارش پر 2017میں سی ڈی اے نے کروڑوں روپے مالیت کا چارکنال رقبے کا حامل پلاٹ مندر کے لیے الاٹ کیا تھا۔جہاں مندر کے علاوہ شمشان گھاٹ، آڈیٹوریم اور کمیونٹی سنٹر بھی بنایا جائیگا۔حالانکہ اسلام آباد میں ہندووںکی آبادی ناہونے کے برابر ہے اور ہندو گھرانوں کی مجموعی تعداد محض تین سو کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔
ماضی میں اسلام آباد یا راولپنڈی میں کسی ہندو کی موت یا عبادت کے لیے راولپنڈ ی میں واقع مندروں سے رجوع کیا جاتار ہا ہے۔جہاں مندروں کی تعداد 30سے زائد بتائی گئی ہے۔
ایسے میں حکومت کی طرف سے 10کروڑ روپے کی لاگت سے اسلام آباد میں چار کنال رقبے پر مندر کی تعمیر سے ملک بھر بے چینی پائی گئی ہے۔شہریوں کا ماننا ہے کہ حکومت نے مندر کے لیے مفت زمین دیدی اب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے مندر کیسے تعمیر کیا جاسکتا ہے۔
اگر مندر تعمیر کرنا ہے توہندو خود سے تعمیر کریں ۔جیسے مسلمان اپنی مدد آپ کے تحت مساجد تعمیر کرتے ہیں۔