راہول گاندھی

راہول گاندھی کا2024 کے انتخابات میں مودی کوچیلنج کرنے کیلئے 2ہزارمیل پیدل سفر

نئی دہلی (رپورٹنگ آن لائن )سفید ٹی شرٹ میں ملبوس (اب)باریش راہول گاندھی کے پاس دولت یا اس کا کوئی ایسا ذخیرہ نہیں تھا جس نے حالیہ برسوں میں ان کے خاندان کا نام بدنام کیا ہو۔انھوں نے گھاٹوٹاگاں میں اسی ماہ ایک سرد دن میں اپنے حامیوں کے نام ایک سادہ سا پیغام دیا تھا:’ہم نے لوگوں کواکٹھا کرنے کے لیے یہ مارچ شروع کیا تھا۔بھارتی ٹی وی کے مطابق ملک کے جنوبی سرے سے کشمیر کے برفیلے شمال تک 2170 میل کا سفر52 سالہ راہول گاندھی کے لیے کرو یا مروکا لمحہ ہے۔ان کی جماعت کانگریس کو گذشتہ دوعام انتخابات میں وزیراعظم نریندرمودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے ہاتھوں عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔کانگریس کبھی بھارت کی سیاست میں ایک ناقابل شکست طاقت تھی لیکن اب راہول گاندھی کو رائے دہندگان سے جڑنے،بدعنوانی کے اسکینڈلوں اور قیادت کے اخراج سے تباہ ہونے والی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے کٹھن جدوجہد کرناپڑی ہے۔بھارت میں آیندہ عام انتخابات میں 15 ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، ان سے قبل راہول گاندھی عوام کی نریندرمودی سے توجہ ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔

وہ مسلسل تیسری مدت کی وزارت عظمی کے لیے میدان میں ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے اور دوردراز دیہات میں رک کر گاندھی نے خود کوایک عوامی رہ نما کے طور پیش کیا ہے اورایک ایسے رہ نما کے طور پرمتعارف کرایا ہے جوحکومت کے سخت ناقد اور بی جے پی کے ہندواکثریتی نظریات کو سیکولر ملک میں آگے بڑھانے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ریاست پنجاب کے شمالی شہرہوشیارپور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کہا کہ ہم نفرت کے بازار میں محبت کی دکانیں کھولتے رہیں گے۔مارچ کا مقصد تشدد، بے روزگاری، قیمتوں میں اضافے اور آمدنی میں عدم مساوات کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔کانگریس کے ایک رہ نما انشول اجیت نے کہاکہ راہول گاندھی اس توانائی کا مرکزہیں جس نے لوگوں کو طویل مارچ میں ان کا ساتھ دینے کی ترغیب دی ہے۔

لیکن کچھ سیاسی مبصرین کو اب بھی شک ہے کہ راہول گاندھی کا پیدل مارچ، جو پیر کے روز سری نگر شہر میں ختم ہو رہا ہے، قومی سطح پر بی جے پی کے غلبے کو کم کرنے میں کوئی بہت کچھ کرسکے گا۔ان کے بہ قول اس کے لیے کانگریس پارٹی کواپنی بنیاد وسیع کرنے کا کوئی راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ایک حالیہ سروے میں ایک تہائی سے زیادہ جواب دہندگان نے کہا کہ اس مارچ نے ایک ہلچل توضرور پیدا کی ، لیکن بھارت کی موجودہ سیاسی درجہ بندی کو تبدیل نہیں کرے گا۔مودی کی مقبولیت کی درجہ بندی مسلسل 60 فی صد کے آس پاس ہے اور پارٹی کے خزانے بھرے ہوئے ہیں۔ 2021 کے لیے بی جے پی کی آمدن ملک کی سات بڑی قومی پارٹیوں کی مشترکہ دولت میں سب سے اوپر ہے۔ بھارت کے ایوان زیریں میں کانگریس پارٹی کے پاس 543 میں سے صرف 52 نشستیں ہیں۔ بی جے پی کے پاس 303 سیٹیں ہیں۔