الف لیلہ دنیا کی ہر زبان میں شائع ہونی والی ایک ہزار ایک طلسمی کہانیاں, جن کا جادو 13 سو سال بعد بھی قائم ہے.
لاہور( شہباز اکمل جندران )
الف لیلہ عربی ادب کا شاہکار ہے جو آٹھویں صدی عیسوی میں کہانیوں کی صورت لکھا گیا۔الف لیلہ و لیلہ کا مطلب ایک ہزار ایک کہانیاں ہے۔
عرب کے بعد ایرانی۔مصری اور ترکی قصہ گو اس میں اضافہ کرتے رہے۔
کہا جاتا ہے کہ سمر قند کا بادشاہ شہریار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دلبرداشتہ ہوکر عورتوں سے متنفر ہو گیا اور ہر روز ایک عورت سے شادی کے بعد صبح اسے قتل کر دیتا۔
آخر کار اس کے وزیر کی بیٹی جس کا نام شہرزاد تھا نے اسے اس عادت بد سے نجات دلانے اور عورتوں کو اس کے اس ظلم سے بچانے کی ٹھانی۔
شہرزاد نے شہریا سے شادی کے بعد اسے ایک کہانی سنائی، رات ختم ہو گئی لیکن کہانی ختم نہ ہوئی۔لڑکی نے بادشاہ سے کہا کہ کہانی کا باقی حصہ وہ کل رات کو سنائے گی۔کہانی اس قدر پر تجسس تھی کہ بادشاہ نے بیوی کوقتل نہ کیا اور اگلی رات کہانی سننے میں دلچسپی ظاہر کی۔
شہرزاد ہر رات کو کہانی شروع کرتی رات ختم ہوجاتی لیکن کہانی ختم نہ ہوتی۔بادشاہ تجسس میں بیوی کا قتل اگلے دن پر موقوفکرتا چلا گیا۔
یہ سلسلہ یو نہی چلتا رہا اور ایک ہزار راتیں گزر گئیں اس دوران میاں بیوی کے تعلقات میں بہت بہتری آچکی تھی اور ان کے بچے بھی جنم لے چکے تھے۔
اور بادشاہ کی عورتیں سے متعلق بڈگمانی بھی جاتی رہی۔
الف لیلہ کی کہا نیوں میں بابل۔فونیشیا۔مصر اور یونان کا کلچر بیان کیا گیا ہے۔
یورپ میں الف لیلہ کا ترجمہ سب سے پہلے فرانسیسی ادیب اینٹونی گلونڈ نے کیا۔پھر دیگر زبانوں میں ان کا ترجمہ ہوا۔اردو میں الف لیلہ کا ترجمہ انگریزی زبان سے کیا گیا ہے۔
جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی بھی الف لیلہ کا ایڈیشن شائع کر چکی ہے
الف لیلہ کی مشہور داستانوں میں علی بابا۔الہ دین۔مچھیرا اور جن۔سند باد جہازی ۔تین سیب۔سمندری بوڑھا۔شہرزاد اور حاتم طائی و دیگر شامل ہیں۔